يورپی ممالک سے ہزاروں افراد شام اور عراق ميں جاری تنازعات ميں شرکت کی غرض سے وہاں سفر کر چکے ہيں۔ اب ان ميں سے کئی واپس آتے جا رہے ہيں اور يورپی حکام اس کشمکش ميں مبتلا ہيں کہ واپس آنے والے جہاديوں کے ساتھ کيا کيا جائے۔
اشتہار
ايک محتاط اندازے کے مطابق شام اور عراق ميں جاری جنگوں ميں ’اسلامک اسٹيٹ‘ يا داعش جيسی دہشت گرد تنظيموں کی صفوں ميں شامل ہو کر لڑنے کے ليے پوری دنيا سے تقريباً ستائيس ہزار غير ملکی افراد نے ان ملکوں کا سفر کيا۔ ان ميں تقريباً پانچ تا چھ ہزار يورپی شہری بھی شامل ہيں تاہم يہ مد نظر رکھتے ہوئے کہ ايسے افراد اکثر و بيشتر خفيہ طور پر مشرق وسطیٰ چلے اور پھر واپس آ جاتے ہيں، ان کی حقيقی تعداد کا تعين کافی مشکل ہے۔ يورپی يونين کے انسداد دہشت گردی سے متعلق امور کے کوآرڈينيٹر ژيل دے کيرکوفے کا ماننا ہے کہ اس وقت بھی دو سے ڈھائی ہزار کے درميان يورپی باشندے مشرق وسطیٰ ميں موجود ہيں۔ جيسے جيسے شامی شہر الرقہ اور ديگر مقامات پر داعش کے جنگجوؤں کو پسپائی کا سامنا ہے، قوی امکانات ہيں کہ يہ جہادی واپس يورپ کی طرف لوٹيں۔ کيرکوفے نے اپنی ايک تازہ رپورٹ ميں لکھا ہے، ’’تازہ ترين اعداد و شمار کے مطابق شام اور عراق جانے والے پندرہ سے بيس فيصد جنگجو وہاں مارے جا چکے ہيں، تيس سے پينتيس فيصد واپس لوٹ چکے ہيں جبکہ تقريباً پچاس فيصد اب بھی وہاں موجود ہيں۔‘‘ ان کے بقول جو افراد اب تک واپس نہيں لوٹے ہيں، وہ خطے کے ديگر ملکوں ميں پناہ ليے ہوئے ہيں اور يہ امکان بھی ہے کہ وہ ديگر خطوں ميں جاری مسلح تنازعات ميں شامل ہوں۔
بیلجیم کا علاقہ مولن بَیک، یورپی جہادیوں کا مرکز؟
02:07
يورپی يونين کے کمشنر برائے سکيورٹی جولين کنگ کے مطابق شام اور عراق ميں سرگرم چند غير ملکی جنگجو يورپی ممالک آنے کی کوشش کريں گے۔ ان ميں سے چند کی نيت مستقبل ميں يورپ ميں شدت پسندانہ کارروائياں ہو گی۔ اگرچہ اسٹاک ہوم، مانچسٹر اور لندن ميں ہونے والے حملوں ميں ايسے افراد ملوث تھے، جو يورپ ميں ہی انتہا پسندی کا شکار ہوئے تاہم سلامتی سے متعلق امور کے ماہرين کا ماننا ہے کہ بيرون ملک سے لوٹنے والے جہادی زيادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہيں۔
فرانسيسی خبر رساں ادارے اے ايف پی کے يورپی بيوروز کے اعداد و شمار کے مطابق پندرہ سو کے قريب جہادی مختلف يورپی ملکوں ميں لوٹ چکے ہيں۔ ان کی بھاری اکثريت واپسی پر يا تو جيل ميں ہے يا پھر انہيں کڑی نگرانی ميں رکھا جاتا ہے۔ فرانسيسی صحافی اور مصنف ڈيوڈ تھومسن کہتے ہيں کہ حکام کے ليے سب سے بڑا چيلج حقيقی طور پر يہ جاننا ہے کہ متعلقہ جہاديوں نے مسلح تنازعات کے شکار ممالک ميں در اصل کيا کيا۔ ان کے بقول جب ان سے يہ دريافت کيا جائے، تو وہ کہتے ہيں کہ انہوں نے شام اور عراق ميں نرسوں کے طور پر کام کيا۔
اے ايف پی کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی سے مجموعی طور پر 820 جہاديوں نے شام اور عراق کا رخ کيا تھا، جن ميں سے 280 واپس آ چکے ہيں۔ اسی طرح ساڑھے چار سو ايسے جہادی برطانيہ لوٹ چکے ہيں جبکہ جانے والوں کی تعداد ساڑھے آٹھ سو تھی۔ فرانس سے ايک ہزار جہادی شام اور عراق گئے تھے جن ميں سے 210 واپس لوٹ چکے ہيں۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔