واپس گھر جانا ہے، جہادیوں کی ’روسی بیواؤں‘ کی پوٹن سے التجا
27 اکتوبر 2019
شام میں کرد فورسز کے زیر انتظام علاقوں میں قید جہادیوں کی مبینہ بیواؤں اور بیویوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے جذباتی اپیل کی ہے کہ انہیں واپس روس بلوا لیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian State TV
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ ماضی میں جہادیوں کی حامی روسی خواتین نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیدران سے اپیل کی ہے کہ انہیں واپس روس میں اپنے گھروں میں پہنچانے میں ان کی مدد کی جائے۔ یہ وہ خواتین ہیں، جنہوں نے جہادیوں سے شادی کر رکھی تھی اور کچھ خواتین کے بچے بھی ہیں۔
آر بی کے نیوز ویب سائٹ نے ہفتے کی شب ایک ایسی ہی روسی خاتون کی آڈیو جاری کی، جس میں سنا جا سکتا ہے کہ وہ واپس اپنے گھر جانے کی درخواست کر رہی ہے۔ اس خاتون کا نام ژولیا کیراکووا بتایا گیا ہے۔ اس خاتون نے کہا، ''میری درخواست ہے کہ مجھے میرے گھر پہنچایا جائے۔ میں واپس آئی ایس ( اسلامک اسٹیٹ) نہیں جانا چاہتی۔‘‘
یہ آڈیو ریکارڈنگ چیچنیا کے انسانی حقوق کی محتسب خیدا سارٹووا نے فراہم کی ہے، جو جہادیوں کی بیواؤں اور بچوں کو واپس روس بلوانے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ آڈیو کب ریکارڈ کی گئی تھی۔ واپس روس آنے کی خواہش رکھنے والی خواتین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ شمال مشرقی شام میں واقع الہور کیمپ یا ترک سرحد کے قریب واقع النسا کیمپ میں رہائش پذیر ہیں۔
ژولیا کیراکووا اپنے آڈیو پیغام کے آخر میں رو بھی پڑیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان کا تعلق روسی شہر سینٹ پیٹرز برگ سے ہے۔ اس خاتون نے کہا کہ اسے خوف ہے کہ الہور کیمپ میں موجود دیگر خواتین انہیں مار پیٹ سکتی ہیں کیونکہ وہ ابھی تک اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہیں، ''یہ خواتین بہت زیادہ جارحیت پسند ہیں۔ انہوں نے خیموں میں آگ بھی لگائی اور دیگر کئی خواتین پر تشدد بھی کیا۔ میں نہیں جانتی کہ میں کیا کروں۔‘‘
سارٹووا نے آر بی کے نیوز ویب سائٹ کو بتایا ہے کہ وہ ژولیا کیراکووا کے گھر والوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ روسی خاتون شام گئی تھی، جہاں اس نے ایک جنگجو سے شادی کر لی تھی۔ تاہم اس کا شوہر ہلاک ہو گیا تھا۔
ایک اور ریکارڈنگ کے مطابق ایک خاتون (جس نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی) کیمپ سے فرار ہو چکی ہے۔ بتایا گیا ہے یہ خاتون ترک زیر انتظام علاقے میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی، جہاں ترک فوج نے اس کی مدد کی۔ ایک اور خاتون نے کہا، ''ہمارے بچے ہیں۔ یہاں جنگ کی حالت ہے۔ ہم کچھ نہیں کر سکتیں۔ ہمیں یہاں سے نکالنے میں کیا مشکل ہو سکتی ہے۔‘‘ اس خاتون نے بھی اپنا نام ظاہر نہیں کیا ہے۔
چیچنیا کے انسانی حقوق کی محتسب خیدا سارٹووا کی ساتھی تاتینا موسکالووا نے 'ایکو آف ماسکو‘ سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ ان خواتین کی روس واپسی کی خاطر متعلقہ حکومتی اداروں سے بات چیت کریں گی۔ یاد رہے کہ جب شام اور عراق میں دہشت گرد گروہ 'اسلامک اسٹیٹ‘ نے غلبہ حاصل کیا تھا تو روس سے تعلق رکھنے والی کئی خواتین بھی جہادیوں کی حمایت میں وہاں پہنچ گئی تھیں۔ تاہم اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے شکست کے بعد کئی روسی خواتین کو واپس اپنے گھروں میں پہنچایا جا چکا ہے۔
ع ب / ش ح / خبر رساں ادارے
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔