1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

واگنر سربراہ پریگوژن کی ہلاکت پر صدر پوٹن نے کیا کہا؟

25 اگست 2023

واگنر گروپ کے سربراہ کی مبینہ موت کے چوبیس گھنٹے بعد روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ یوگینی پریگوژن "باصلاحیت شخص تھے لیکن سنگین غلطیاں کیں۔" پریگوژن بدھ کو ایک طیارہ حادثے میں ہلاک ہو گئے۔

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پریگوژن کے ماسکو کی جانب مارچ کرنے کے فیصلے کو ''غداری'' قرار دیا تھا
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پریگوژن کے ماسکو کی جانب مارچ کرنے کے فیصلے کو ''غداری'' قرار دیا تھاتصویر: picture alliance

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے طیارہ حادثے میں نجی فوجی گروپ واگنر کے سربراہ یوگینی پریگوژن کی ہلاکت کے واقعے پر کوئی 24 گھنٹے بعد اپنی خاموشی توڑی۔ انہوں نے ٹیلیوژن پرنشر ہونے والے اپنے تبصرے میں واگنر کے سربراہ کی موت پر تعزیت کا اظہار کیا۔

پریگوژن سمیت دس افراد بدھ کی شام کو اس وقت ہلاک ہوگئے تھے جب ایک نجی طیارے پر سفر کے دوران طیارہ ٹیور گاوں میں کوچینیکو کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔ اس ایمبیریر طیارے پر پریگوژن کے ساتھی اور ان کی کارروائیوں کے منتظم دمتری یوٹکن بھی سوار تھے۔

وہ سات روسی جنہیں پوٹن کی مخالفت کی قیمت ادا کرنی پڑی

واگنر سے وابستہ ٹیلی گرام چینل گرے زون نے پریگوژن کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے انہیں ایک ہیرو اور محب وطن قرار دیا۔ پوسٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ وہ ''روس کے غدار'' نامعلوم افراد کے ہاتھوں مارے گئے۔

پوٹن نے کیا کہا؟

روسی صدر پوٹن نے کہا کہ واگنر گروپ کے سربراہ ایک "باصلاحیت شخص تھے، جس نے زندگی میں سنگین غلطیاں کیں۔"

پریگوژن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پوٹن نے کہا، "انہوں نے زندگی میں سنگین غلطیاں کیں۔ لیکن انہوں نے میرے کہنے پر پچھلے چند ماہ کے دوران اپنے لیے اور عام لوگوں، دونوں کی بھلائی کے لیے نتائج بھی حاصل کیے۔"

پوٹن نے پریگوژن کے ساتھ اپنے روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ انہیں سن 1990کی دہائی کے اوائل سے جانتے ہیں۔ "وہ ایک پیچیدہ زندگی گزارنے والے شخص تھے۔"

طیارہ حادثے میں نجی فوجی گروپ واگنر کے سربراہ یوگینی پریگوژن سمیت تمام دس افراد ہلاک ہو گئےتصویر: AP Photo/picture alliance

'غلطیاں کی لیکن نتائج بھی حاصل کیے'

پوٹن نے پریگوژن کی موت پر تبصرہ کرنے میں تاخیر کی جانب اشارہ کرتے کہا کہ طیارہ حادثے کی سرکاری تحقیقات کے نتائج کا انتظار ضروری تھا۔

روسی صدر نے پریگوژن اور ان کے جنگجووں کی بھی، بالخصوص یوکرین میں ان کے اقدامات کے لیے، تعریف کی۔

پوٹن کا کہنا تھا،"جہاں تک اس فضائی سانحے کامعاملہ ہے تو سب سے پہلے میں تمام متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔"

 انہوں نے مزید کہا،"درحقیقت اگر واگنر کے ملازمین اس میں تھے اور ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تھے، تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے یوکرین میں نو نازی حکومت کا مقابلہ کرنے کے ہمارے مشترکہ مقصد میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ہمیں یاد ہے۔ ہم اسے کبھی نہیں بھولیں گے اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔"

 

 پریگوژن کی ہلاکت پر شبہات

پریگوژن کی موت کے حوالے سے کئی طرح کے شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ صدر پوٹن نے بھی گو کہ پریگوژن کے حوالے سے اپنے بیان میں ان کے لیے ماضی کا صیغہ استعمال کیا تاہم انہوں نے ان کی موت کی واضح طورپر تصدیق نہیں کی۔

امریکی وزارت دفاع پنٹاگون کے ترجمان نے جمعرات کے روز ایک بریفنگ میں کہا کہ امریکہ کا خیال ہے کہ واگنر کے سربراہ ممکنہ طورپر حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ ایک امریکی اہلکا ر نے اس حوالے سے کہا کہ ممکنہ طورپر اس کی وجہ طیارے میں ہونے والا ایک دھماکہ تھا۔

امریکی ایجنسیاں، واگنر کی بغاوت کے آثار جان چکی تھیں، میڈیا

دوسری طرف واگنر سے منسلک ٹیلی گرام چینل نے ایک اور نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ طیارے کو روسی طیارہ شکن فورسز نے مار گرایا تھا۔

لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے اور پنٹاگون کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق کے سلسلے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔

پریگوژن روسی صدر پوٹن اور کریملن کے لیے سب سے بڑا کھلا چیلنج بن گئے تھےتصویر: Prigozhin Press Service/AP Photo/picture alliance

پریگوژن کون تھے؟

 ایک سزا یافتہ مجرم پریگوژن نے نجی فوجی گروپ واگنر کی تشکیل سے پہلے کیٹرنگ کمپنی کی ایک کامیاب تجارت کی۔

پوٹن نے کہا "وہ(پریگوژن)ایک باصلاحیت شخص تھے، وہ ایک باصلاحیت تاجر تھے۔ انہوں نے نہ صرف ہمارے ملک میں کام کیا اور نتائج حاصل کیے بلکہ بیرون ملک بھی خاص طورپر افریقہ میں بھی۔ جہاں وہ تیل، گیس اور قیمتی دھاتوں اور پتھروں کے کاروبار سے وابستہ تھے۔"

واگنر فورسز یوکرین پر روسی حملے میں شامل تھیں، جس نے باخموت کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ لیکن پریگوژن اور سرکاری روسی فوج کے اعلیٰ حکام کے درمیان تنازعات اس وقت بڑھ گئے جب پریگوژن نے اپنی فوج کو یوکرین سے نکالنے اور ماسکو کی جانب مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور روستوف آن ڈان نامی ایک اہم شہر کو اپنے قبضے میں لے لیا۔

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ایک عوامی خطاب کے دوران پریگوژن کے اقدامات کو ''غداری'' قرار دیا تھا۔

اس سے چند ماہ قبل ہی 62 سالہ پریگوژن نے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور چیف آف اسٹاف ویلیری گیراسیموف پر زبانی حملے کیے تھے۔ انہوں نے اپنی فوج کے لیے رسد کی کمی کی شکایت کی تھی اور یہ الزام بھی لگایا کہ روسی فوج نے واگنر گروپ کے فوجیوں پر فائرنگ کی تھی۔

یوکرینی جنگ میں دس ہزار روسی قیدی مارے جا چکے ہیں، واگنر

 پریگوژن بیس برس سے زیادہ عرصے سے اقتدار پر فائز رہنے والے روسی صدر پوٹن اور کریملن کے لیے سب سے بڑا کھلا چیلنج بن گئے تھے۔

ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں