وبا اور انسان دوستی، جرمنوں نے ساڑھے پانچ بلین یورو عطیہ کیے
16 فروری 2021
جرمنی میں کورونا وائرس کی وبا کے پہلے برس عام شہریوں نے ایک سال پہلے کے مقابلے میں واضح طور پر زیادہ رقوم عطیہ کیں۔ انسانی ہمدردی کے طور پر ان نقد عطیات کی سالانہ مالیت تقریباﹰ ساڑھے پانچ بلین یورو رہی۔
اشتہار
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیے جانے والے مالی عطیات پر نظر رکھنے والے ملکی تنظیم جرمن ڈونیشنز کونسل نے آج منگل کے روز بتایا کہ 2020ء میں جرمن عوام نے مجموعی طور پر 5.4 بلین یورو سینکڑوں مختلف اداروں کو عطیات کے طور پر دیے۔ یہ رقوم 2019ء کے مقابلے میں پانچ فیصد زیادہ تھیں۔
جرمن ڈونیشنز کونسل کے وفاقی ناظم الامور ماکس مَیلسر کے مطابق ان کے ادارے کو کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے پیدا شدہ بحرانی حالات اور انسانوں کے آپس میں سماجی رابطے مسلسل بہت محدود رہنے کے باعث یہ توقع نہیں تھی کہ جرمن باشندوں کی طرف سے عطیات کی سالانہ مالیت کم ہونے کے بجائے دراصل زیادہ ہو جائے گی۔
ماکس مَیلسر نے بتایا کہ بہت محتاط اندازوں کے مطابق بھی ان کی تنظیم کا تخمینہ یہ تھا کہ ملک میں مالی عطیات کا مجموعہ کم کے بجائے اگر زیادہ بھی ہو گیا، تو یہ اضافہ 1.6 فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا۔ تاہم ڈونیشنز کونسل کے ماہرین حتمی اعداد و شمار پر مشتمل سالانہ رپورٹ کی تیاری کے دوران یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ 2020ء میں ملک بھر میں دیے جانے والے مالی عطیات میں پانچ فیصد اضافہ ہوا۔
پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات کرنے والے ممالک میں
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد فلاح و بہبود میں صرف کر دیتے ہیں جس کے باعث پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد
’سٹینفورڈ سوشل اِنووویشن ریویو‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان خیرات کرنے والے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو دنیا کے امیر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ جیسے کہ برطانیہ، جہاں شہری مجموعی قومی پیداوار کا 1.3 فیصد خیرات کرتے ہیں، کینیڈا میں شہری 1.2 فیصد خیرات کرتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سالانہ دو ارب ڈالر مالیت کے برابر عطیات
’پاکستان سینٹر فار پھلنتھروپی‘ کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری سالانہ دو ارب ڈالر مالیت کے برابر عطیات دیتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر اشیاء یا رقم اداروں کے بجائے مستحق افراد کو براہ راست دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
زیادہ تر دی جانی والی رقم کی مالیت کم
اس ریسرچ کے مطابق زیادہ تر دی جانی والی رقم کی مالیت کم ہوتی ہے مگر وہ باقاعدگی سے دی جاتی ہے۔ یہ امداد زیادہ تر مستحق افرادکو دی جاتی ہے۔ ان افراد تک اداروں کی نسبت پہنچنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
تصویر: DW/Beenish Ahmed
الی امداد زیادہ تر مساجد اور مدرسوں کو
اداروں کو دی جانے والی مالی امداد زیادہ تر مساجد اور مدرسوں کو دی جاتی ہے۔ لوگوں کے گھروں میں جا کر پیسہ جمع کرنے اور محلوں چندے کے لیے ڈبوں کے رکھے جانے سے یہ ادارے زیادہ رقم جمع کر لیتے ہیں۔
تصویر: Imago
کم بھروسہ
پاکستانی عوام کا ایک طبقہ اس خوف سے کہ کہیں ان کی دی ہوئی رقم ضائع نہ ہو جائے، عام فلاحی تنظیموں کو کم دیتے ہیں اور زیادہ مستحق غریب افراد کو رقم یا اشیاء عطیہ کرتے ہیں۔
تصویر: Imago
دولت کا ہونا
پاکستان میں صاحب حیثیت افراد نہ صرف اپنے قریبی مستحق افراد کی مدد کرتے ہیں بلکہ ان کی دولت سے خیراتی اداروں کی بھی مالی مدد کی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مالی طور پر خوش حال افراد کے پاس خیراتی اداروں کے بارے میں معلومات بھی زیادہ ہوتی ہیں اور وہ بعض اوقات ان خیراتی اداروں سے منسلک بھی ہوتے ہیں۔
تصویر: AP
نوے فیصد خیرات براہ راست مستحق افراد
بلوچستان میں جہاں مالی اعتبار سے درمیانے اور نچلے درجے کے افراد کی تعداد زیادہ ہے وہاں نوے فیصد خیرات اداروں اور تنظمیوں کے بجائے براہ راست مستحق افراد کو دی جاتی ہے۔
یہ عطیات زیادہ تر انسانی بنیادوں پر ہمدردی کے سماجی منصوبوں، تحفظ ماحول، جانوروں کے ساتھ رحم دلانہ برتاؤ، اور فن و ثقافت کی ترویج سے متعلق مختلف منصوبوں پر کام کرنے والی سماجی فلاحی تنظیموں کو دیے گئے، جن میں سے جرمن ریڈ کراس ایک بہت اہم نام تھا۔
جرمنی میں عام شہریوں کی طرف سے مالی عطیات کا ملکی سطح پر سالانہ ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ 2005ء سے جاری ہے۔ جرمن ڈونیشنز کونسل کی طرف سے جو سالانہ رپورٹ جاری کی جاتی ہے، اس کا عنوان 'امدادی عمل کا میزانیہ‘ ہوتا ہے۔
جرمنی کی مجموعی آبادی 83 ملین کے قریب ہے اور گزشتہ برس 19 ملین سے زائد باشندے ایسے تھے، جنہوں نے کسی نا کسی سماجی فلاحی تنظیم کو مالی عطیات دیے۔
م م / ع ح (ڈی پی اے)
جنوبی افریقہ میں صابری چشتی ایمبولینس سروس کا کردار
مسیحی اکثریتی ملک جنوبی افریقہ کے مسلمانوں نے تیس برس پہلے عطیات جمع کرتے ہوئے صابری چشتی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا تھا۔ کورونا بحران میں یہ سروس نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں لیے بھی سہارا بنی ہوئی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
مسیحی اکثریتی ملک جنوبی افریقہ کے اقلیتی مسلمانوں نے تیس برس پہلے عطیات جمع کرتے ہوئے صابری چشتی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا تھا۔ کورونا بحران میں یہ سروس نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں لیے بھی سہارا بنی ہوئی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
میت کو غسل دینے والے شخص نے کورونا وائرس کے خطرے کے باعث حفاظتی لباس پہن رکھا ہے لیکن اس کے باوجود میت کا احترام وہاں کیے جانے والے انتظامات سے عیاں ہوتا ہے۔ ساؤتھ افریقہ کی مسلم کمیونٹی نے دارالحکومت جوہانسبرگ کے مضافاتی علاقے لیناسیا میں خصوصی غسل خانے قائم کیے ہیں، جہاں کورونا وائرس کے باعث وفات پا جانے والوں کو غسل دیا جاتا ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
اب اس سروس کا دائرہ کار وسیع ہو چکا ہے۔ اب کورونا کے مریضوں کو نا صرف ان کے گھروں پر ہی طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں بلکہ شدید بیمار مریضوں کو آکسیجن بھی مہیا کی جاتی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
جنوبی افریقہ میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایسے میں اب مسلمانوں کی تدفین کے لیے میت کے غسل سے لے کر اس کی تدفین تک کا عمل یہی تنظیم انجام دے رہی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
یہ سوسائٹی اب تک کورونا سے متاثرہ 180 افراد کی تدفین کر چکی ہے جبکہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قبرستان میں پہلے ہی قبریں کھودی گئی ہیں۔ اب کئی دیگر مقامی تنظیمیں بھی صابری چشتی سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں اور ہلکی علامات والے کورونا کے مریضوں کو ان کے گھروں پر ہی علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
اس وقت دنیا بھر میں زیادہ تر غیر مسلم آبادی والے ممالک میں آباد مسلمانوں کو تدفین کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم ساؤتھ افریقہ کی صابری چشتی کمیونٹی اس مسئلے کے حل کے لیے انتہائی معاون ثابت ہو رہی ہے۔ اس تنظیم کو مقامی طبی حکام کا تعاون بھی حاصل ہے تاکہ محفوظ تدفین کو ممکن بنایا جا سکے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
ابوبکر سید کے مطابق یہ غریب علاقہ ہے اور لوگوں کے پاس پیسے بھی نہیں ہوتے۔ لہٰذا زیادہ تر افراد سے کوئی فیس وغیرہ نہیں لی جاتی۔ ساؤتھ افریقہ کی ساٹھ ملین کی آبادی میں سے اب تک تقریباﹰ چودہ لاکھ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہسپتالوں میں نئے مریضوں کے لیے گنجائش کم ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
ساؤتھ افریقہ میں کورونا وائرس کی دوسری لہر جاری ہے اور اب وہاں مریضوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ آج کل اس تنظیم کی ایمبولینس سروس روزانہ کووڈ انیس کے اوسطاﹰ چودہ مریضوں کو ہسپتال منتقل کر رہی ہے۔ یہ سروس اب لیناسیا اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کے تمام رہائشیوں کو بلاامتیاز فراہم کی جا رہی ہے۔