1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وبا اور عوامیت پسندی: جرمنی میں سازشی نظریات کا پھیلاؤ

27 اپریل 2020

کورونا وائرس کی وبا نے جہاں بے یقینی کو فروغ دیا ہے وہاں جرمنی میں سازشی نظریات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے نظريات کے حامل افراد نے اس دور میں بھی نفرت انگیز کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

Symbolbild Verifizierung
تصویر: Imago Images/Panthermedia/O. Le Moal

جرمنی میں سازشی نظریات کی افزائش کا سلسلہ ایک ایسی خبر سے شروع ہوا، جو صداقت پر مبنی تھی۔ رواں برس بائیس مارچ کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل عوامی منظر سے کچھ ایام کے لیے غائب ہو گئی تھیں۔ ان کے ترجمان نے وضاحت کی کہ چانسلر کے احتیاط اپناتے ہوئے چودہ ایام کے لیے اپنے گھر میں قرنطينہ ہونے کی وجہ، اُن کے ذاتی معالج کا کورونا وائرس کا شکار ہونا تھی۔

بائیس مارچ کو جرمن میڈیا پر سب سے اہم خبر چانسلر ميرکل کے خود ساختہ قرنطينہ کے بارے ميں تھی۔ اس خبر کے بعد ایسی قیاس آرائیاں سامنے آنے لگيں کہ انگيلا ميرکل کے قرنطینہ ہونے کے بعد سرکاری معاملات کیسے آگے بڑھیں گے۔ بس یہی بات سازشی نظریے کی اساس بنی اور پھر جتنے منہ اتنی باتیں۔ فرق فرق خیالات مختلف اخبارات و جرائد کی زینت بننے لگے۔ حالاں کہ یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ انگیلا میرکل گھر میں بیٹھ کر حکومتی امور نمٹائیں گی۔

تصویر: Reuters/B. von Jutrczenka


بے بنیاد باتوں کا سلسلہ

انتہائی دائیں بازو کے حلقوں میں سازشی نظریات کو فروغ دینے کی کھسر پھسر اور سرگوشیوں نے زور پکڑ لیا۔ مشرقی جرمن ریاست سیکسنی میں اسلام اور مہاجرین مخالف سیاسی جماعت آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لانڈ (AfD) کی ریاستی پارلیمان کے ترجمان اندریاس البرخٹ ہارلاس نے اپنے اندازے سے یہ تک کہہ دیا کہ میرکل اب شاید کھبی واپس نہیں آئیں گی۔ ہارلاس نے یہ بھی کہا کہ قرنطينہ میں جانا ایک بہانا ہے اور اصل میں انہوں نے چانسلر کے منصب اور حکومت سے علیحدگی کی راہ اپنا لی ہے۔

سیکسنی صوبے میں اے ایف ڈی کے رہنما اندریاس البرخٹ ہارلاس کے ساتھیوں نے کچھ اور باتیں کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جرمن چانسلر کورونا وائرس سے خوفزدہ ہو کر ایک دیہی علاقے میں اپنے مکان کے اندر ایک انتہائی محفوظ زیر زمین بنکر میں گوشہ نشین ہو گئی ہیں۔ یہ دیہی علاقہ پاراگوائے میں ہے اور اسے انہوں نے کچھ سال قبل خریدا تھا۔ حقیقت میں ان سازشی نظریات کو پھیلانے والوں کو بظاہر کوئی فائدہ تو نہیں ہوا۔ شرمندہ ہونے کے بجائے وہ ابھی بھی سازش کی ترویج کے ساتھ ساتھ بیکار افواہوں کے تانے بانے بن رہے ہیں۔

پین ڈیمیک پاپولیزم
جرمنی کی مؤنسٹر یونیورسٹی کے محققین نے رواں برس جنوری سے مارچ کے دوران ایسی تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار سازشی نظریات کی حامل پوسٹس دیکھيں، جو مختلف جرائد سے اٹھا کر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر ڈالی گئی تھیں۔ محققین کے مطابق ان پوسٹس میں سے بے شمار کی اشاعت متبادل یا آلٹرنیٹو میڈیا پر ہوئی تھی۔ یونیورسٹی کی ریسرچ کے سربراہ تھورسٹن کوانڈٹ تھے۔

رپورٹ میں متبادل میڈیا کے خد و خال اور اس کے کام کرنے کے طریقوں پر سیر حاصل فوکس بھی کیا گیا۔ متبادل میڈیا سے مراد دائیں بازو کی خبریں اور بیانات کو شائع کرنے والے جریدے ہیں۔ یہ جریدے عموماً مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ ميں شامل نہیں ہوتے کیونکہ ان کی سوچ قومی نہیں ہوتی۔

تھورسٹن کوانڈنٹ کی زیر نگرانی مکمل ہونے والی ریسرچ کو 'وبائی یا وبا میں عوامیت پسندی‘ کا نام دیا گیا۔ اس کو انگریزی میں Pandemic Populidsm کہا گیا۔ ریسرچ کے مطابق کورونا وائرس کی وبا میں 'پین ڈیمیک پاپولیزم‘ ایسا ہی موضوع بن کر ابھرا ہے جیسا کہ کلائمیٹ چينج، مہاجرین کا بحران اور وائرس کے پھیلاؤ کو قیامت کی نشانیوں کے ساتھ نتھی کرنا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ متبادل میڈیا اپنی سوچ کے مطابق وبا کے دور میں عوامیت پسندی کی اصطلاح کو مقبول کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا ہے۔

ہانس فائفر / ع ح،  ع س

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں