ایشیئن ڈیویلپمنٹ بینک نے خبردار کیا ہے کہ کووڈ انیس کی وبا میں تسلسل سے وسیع اقتصادی نقصان ہو گا۔ اس وقت کورونا وائرس کی وبا تقریباً دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔
اشتہار
ایشیائی ترقیاتی بینک کے اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر کورونا وائرس کی نئی قسم کی وبا اگلےمزید چھ ماہ تک جاری رہی تو عالمی اقتصادیات کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا۔ ماہرین کا مزید کہناہے کہ اس نقصان کا ازالہ جلد ممکن نہیں ہو گا۔ یہ بھی کہا گیا کہ کئی ممالک کی سالانہ ترقیکی رفتار میں شدید گراوٹ پیدا ہو جائے گی۔
کورونا وائرس کی پھیلی ہوئی وبا کے تناظر میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی انتباہی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ وبا سے عالمی معیشت کو 3.78 ٹریلین یورو یا چار ٹریلین ڈالر سے زائد کے نقصان کاسامنا ہے۔ بینک کے مطابق اگر وائرس سے پھیلی ہوئی وبا پر کم مدت میں قابو پا لیا گیا تو اسصورت میں بھی عالمی سطح پر ہونے والے اقتصادی نقصان کا حجم دو ٹریلین ڈالر کے قریب ہو گا۔
بینک کی رپورٹ کے مطابق اقوام عالم کی اقتصادی آؤٹ پُٹ میں تقریباً پانچ فیصد کی کمی واقعہونے کا قوی امکان ہے۔ اس رپورٹ میں گھمبیر معاشی صورت حال سے پریشان کن سماجی بحرانکے پیدا ہونے کا بھی بتایا گیا ہے اور یہ بحران اداروں کے مکمل انہدام اور انسانوں میں شدیدڈیپریشن کا باعث ہو گا۔
ایشیائی ممالک کی معاشی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے فلپائینی دارالحکومت منیلا میں قائمبینک کی مرتب کردہ رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں چین کی سالانہمعاشی ترقی کی رفتار میں دو تہائی کی کمی یقینی ہے۔ یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ چینیاقتصادیات کاروباری سرگرمیوں میں شدید کمی کی وجہ سے پہلے ہی رواں برس جنوری اور فروریمیں دو فیصد سے زائد سکڑ چکی ہے۔ چینی معاشی ترقی کی سطح تین دہائیوں کے بعدمحض 2.3 کی سطح تک گِر سکتی ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک براعظم ایشیاء کے ممالک کی اقتصادی ترقی کی شرح میں پیدا ہونے والیبھاری گراوٹ کا اشارہ دے چکا ہے۔ بینک کے مطابق وبا کی وجہ سے سن 1998 کے بعد ایشیائیممالک کا معاشی حجم انتہائی شدید سکڑنے کا عمل پیدا ہو چکا ہے۔ ایشیائی ملکوں میںاقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی رواں برس کے دوران 2.2 فیصد پر پہنچ جائے گی جب کہ گزشتہبرس یہ شرح 1.5 فیصد تھی۔ رپورٹ کے مطابق اگر یہ معاشی گراوٹ کسی طرح 2.2 فیصد پر روکلی جاتی ہے تو اگلے برس یعنی سن 2021 میں اس کے بہتر ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن
نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر سماجی میل ملاپ سے اجتناب اور سفری پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں سیاحت کے ليے مشہور بڑے بڑے شہر بھی سنسان ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/S. Babbar
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
تصویر: AFP/T. Akmen
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Bruno
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
تصویر: Imago Images/Zuma/E. Inetti
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Bonilla
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔