وبا سے نمٹنے کے ليے يورپی کميشن کا مربوط حکمت عملی پر زور
15 اپریل 2020
کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے ليے يورپی کميشن کا مربوط حکمت عملی اپنانے پر زور ہے ليکن چند رکن ممالک انفرادی سطح پر فيصلہ سازی کر رہے ہيں۔ آيا ايسا کوئی منصوبہ ہے بھی، جو پورے کے پورے بلاک کے ليے کارآمد ثابت ہو؟
اشتہار
يورپی کميشن کی صدر ارژلا فان ڈيئر لائن ستائيس رکنی يورپی بلاک ميں پابنديوں کے مرحلہ وار خاتمے کے ليے آج بروز بدھ ايک منصوبہ پيش کر رہی ہيں۔ يہ تفصيلی منصوبہ چودہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا مرکزی نقطہ يہ ہے کہ حالات معمول کے مطابق ہونے ميں کافی وقت لگ سکتا ہے تاہم غير معمولی بندشيں غير معينہ مدت تک کے ليے لاگو نہيں رکھی جا سکتيں۔ فان ڈيئر لائن کے مطابق مختلف يورپی ممالک ميں لاک ڈاؤن سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے البتہ سماجی و اقتصادی سرگرمياں اور لوگوں کی روز مرہ کی زندگياں بھی بری طرح متاثر ہوئيں۔
يورپی ماہرين کے اندازوں کے مطابق اس سال يورو زون کے رکن ملکوں کی اقتصاديات دس فيصد تک سکڑ سکتی ہيں۔ 1920ء کے عالمی اقتصادی بحران کے بعد ايسی غير معمولی کساد بازاری اب ديکھنے ميں آ سکتی ہے۔
رکن رياستوں کے مابين ممکنہ کشيدگی سے بچنے کی کوششيں
يورپی کميشن کی صدر نے بلاک کی رياستوں پر زور ديا ہے کہ وہ سماجی و اقتصادی سرگرميوں پر نافد پابندياں اٹھانے کے معاملے ميں مربوط حکمت عملی اختيار کريں۔ انہوں نے خبردار کيا ہے کہ اس معاملے ميں عدم تعاون بلاک کی ديگر تمام رياستوں کے ليے بھی منفی نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔ ارژلا فان ڈيئر لائن کے مطابق اس سے يورپی بلاک کے اندر رکن ملکوں ميں کشيدگی بھی بڑھ سکتی ہے۔
کورونا وائرس کو عالمگير وبا قرار ديے جانے کے بعد يورپ کی کئی رياستوں نے يکطرفہ طور پر فيصلے ليتے ہوئے اپنی اپنی سرحديں بند کر دی تھيں۔ ارژلا فان ڈيئر لائن نے اميد ظاہر کی کہ آئندہ ہفتوں يا مہينوں کے دوران سرحدی بندشيں ہٹانے کے معاملے ميں زيادہ منظم اور مربوط انداز سے کام ہو سکے گا۔
انفيکشن بڑھ بھی سکتے ہيں
يورپی کميشن نے لاک ڈاؤن ميں نرمی اور پابنديوں کے خاتمے کے ليے تين شرائط کی نشاندہی کی ہے۔ برسلز حکام کے مطابق ہسپتالوں پر سے بوجھ ميں کمی، انفيکشن پھيلنے کی رفتار ميں گراوٹ اور نازک سمجھے جانے والے گروپوں کو اضافی حفاظتی سامان کی فراہمی ممکن بنائے جانے تک نرمی نہيں کی جانی چاہييں۔ يورپی کميشن کے دستاويز ميں لاک ڈاؤن ميں نرمی اور پابنديوں کے خاتمے کے ليے کسی مخصوص تاريخ کا کوئی ذکر نہيں ہے۔
اس ضمن ميں يہ بھی کہا گيا ہے کہ بندشوں کے خاتمے يا ان ميں کمی کے نتيجے ميں نئے انفيکشن سامنے آئيں گے۔ يہی وجہ ہے کہ رياستوں کو اس کی کڑی نگرانی کرنی ہو گی اور ضرورت پڑنے پر سخت تر اقدامات بھی متعارف کرانے پڑ سکتے ہيں۔
رکن رياستوں کے يکطرفہ اقدامات
آسٹريا اور ڈنمارک نے چند پابندياں جزوی طور پر ختم کرنے کا اعلان کر ديا ہے۔ دوسری جانب فرانس اور اسپين ميں اب بھی قوانين پر سختی سے عملدرآمد جاری ہے۔ سويڈن ميں پابندياں نہ ہونے کے برابر ہيں۔ جبکہ تقريباً نصف رکن رياستوں نے اپنے ہاں ہنگامی حالت نافذ کر رکھی ہے۔ جرمنی کی سولہ کی سولہ رياستوں ميں وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی مختلف ہے۔
مالی پيکج بھی زير غور
ستائيس رکنی يورپی بلاک ميں پابنديوں کے مرحلہ وار خاتمے کے ليے يورپی کميشن کی صدر ارژلا فان ڈيئر لائن کی جانب سے تيار کردہ منصوبے کے مسودے ميں اقتصادی پيکج کا بھی ذکر ہے۔ فان ڈيئر لائن نے پيداوار بڑھانے اور ٹيکسوں ميں کمی کی سفارش کی ہے۔ يورپی کميشن بلاک کی وبا کے بعد معيشت کو سہارا دينے کے ليے کئی بلين يورو کی امداد کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن
نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر سماجی میل ملاپ سے اجتناب اور سفری پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں سیاحت کے ليے مشہور بڑے بڑے شہر بھی سنسان ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/S. Babbar
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
تصویر: AFP/T. Akmen
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Bruno
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
تصویر: Imago Images/Zuma/E. Inetti
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Bonilla
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔