وبا کی وجہ سے کتنے لوگ خط غربت سے نيچے چلے جائيں گے؟
12 جون 2020
ايک تازہ مطالعے کے نتائج سے يہ سامنے آيا ہے کہ نئے کورونا وائرس کی عالمگير وبا کے باعث خط غربت سے نيچے موجود افراد کی تعداد خاطر خواہ اضافے کے ساتھ ايک بلين سے تجاوز کر جائے گی۔
اشتہار
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنيا بھر ميں غربت کی لکير سے نيچے موجود افراد کی تعداد ايک بلين سے تجاوز کر سکتی ہے۔ يہ انکشاف کنگز کالج لندن اور آسٹريلين نيشنل يونيورسٹی کے ايک تازہ مطالعے ميں کيا گيا ہے، جو جمعے کو جاری کيا گيا۔ موجودہ وبا دنيا کے غريب ترين طبقے کی آمدنی ميں يوميہ بنيادوں پر پانچ سو ملين ڈالر کی کٹوتی کا سبب بن رہی ہے۔
روزانہ کی بنيادوں پر 1.90 ڈالر يا اس سے کم کمانے والوں کو غربت کی لکير سے نيچے قرار ديا جاتا ہے، جن کی موجودہ تعداد سات سو ملين ہے اور پيشنگوئی کی گئی ہے کہ وبا کے باعث يہ تعداد بڑھ کر 1.1 بلين تک پہنچ سکتی ہے۔ مطالعے ميں يہ انکشاف بھی کيا گيا ہے کہ وبا کے اقتصادی نقصانات سے سب سے زيادہ ايشيائی ممالک متاثر ہوں گے جن میں بنگلہ ديش، بھارت، انڈونيشيا اور پاکستان شامل ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا میں بے گھر افراد کہاں جائیں گے؟
02:48
کنگز کالج لندن ميں انٹرنيشنل ڈيولپمنٹ کے پروفيسر اينڈی سمرز کے مطابق، ''يہ عالمگير وبا ترقی پذير ملکوں کے ليے تيزی سے اقتصادی بحران ميں تبديل ہو رہی ہے۔‘‘ سمرز اس مطالعے کے نتائج پر مبنی رپورٹ کے شريک مصنف ہيں۔ ان کے بقول مناسب اقدامات نہ کرنے کی صورت ميں عالمی سطح پر غربت ميں کمی کی کوششيں بيس تيس سال پيچھے چلی جائيں گی۔ محققين عالمی سطح پر موثر قيادت پر زور دے رہے ہيں۔ جون دس تا بارہ ترقی يافتہ گروپ آف سيون کے ليڈران کی ملاقات سے کچھ اميديں وابستہ تھيں تاہم يہ ملاقات بھی ملتوی ہو گئی۔
کنگز کالج لندن ميں انٹرنيشنل ڈيولپمنٹ کے پروفيسر اينڈی سمرز کے مطابق اس وقت تين نکات پر مبنی حکمت عملی کو ترجيح دينی چاہيے۔ سب سے پہلے کووڈ انيس سے فوری طور پر نمٹنے کے ليے عالمی سطح کے ايک کميشن کا قيام ضروری ہے، جس کی قيادت کسی ايسے فرد کے ہاتھوں ميں ہو، جو معاشی ضروريات سمجھ سکے اور اس پر رد عمل مرتب کر سکے۔ سمرز نے فوری طور پر فنڈنگ کے اجراء پر بھی زور ديا۔ پروفيسر کے مطابق جو ممالک لاک ڈاؤن سے مستفيد ہو رہے ہيں، وہ رقوم کو سماجی سطح پر سلامتی بڑھانے کے ليے بروئے کار لائيں۔
ترکی کی مسجد اب ایک امدادی مرکز
ترک شہر استنبول کی ایک مسجد کورونا وائرس کی وبا کے دور میں ایک امدادی مرکز میں تبدیل ہو چکی ہے۔ آئیے اس مسجد کو دیکھیں تصاویر میں۔
تصویر: DW/S. Rahim
دید یمن مسجد بے شمار میں یکتا
استنبول میں یوں تو تین ہزار سے زائد مساجد ہیں، مگر دیدیمن مسجد دیگر مساجد کی طرح عبادت کے لیے بند ہو جانے کے بعد ایک نئے کردار میں دیکھی جا سکتی ہے۔ امام مسجد نے اسے ایک ’سپر مارکیٹ‘ میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں خوارک کا ایک بینک ہے جو وبا سے متاثرہ افراد کی مدد کرتا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
مسجد کے دروازے کھلے ہیں
اب تین ہفتے سے زائد عرصہ ہونے کو ہے، جب اس مسجد نے امداد کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ یہاں روزانہ ایک ہزار افراد آ کر ضروریات کی چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ تعداد بارہ سو تک پہنچ جاتی ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
مسجد اب خوراک کی ذخیرہ گاہ
مسجد کی مرکزی جائے نماز اب ایک اسٹور میں تبدیل کی جا چکی ہے۔ جب سپلائی یہاں پہنچتی ہے، تو امام اور ان کی رضاکار ٹیم اسے یہاں ذخیرہ کر دیتی ہے اور یہاں سے خوراک مسجد کے دروازے کے قریب شلیف تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
سامان کی قلت نہیں
یہاں تمام شلیف طرح طرح کی چیزوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کوکنگ آئل ہو کہ پاستا، آٹا ہو کہ دالیں، چینی، ہو چائے ہو یا دیگر ڈیری پروڈکٹس، سب کچھ دستیاب ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
بچوں کی چاکلیٹ کہاں ہے؟
ایسا نہیں یہاں فقط انتہائی ضرورت کی اشیاء رکھی گئی ہیں اور بچوں کا بالکل خیال نہیں۔ یہاں موجود رضا کار امدادی سامان لینے والے لوگوں سے پوچھتے دکھائی دیتے ہیں کہ کیا آپ نے بچوں کے لیے چاکلیٹ لی؟
تصویر: DW/S. Rahim
یہ بھی تو عبادت ہے
33 سالہ عبدالسمیت شاکر دیدیمن مسجد کے امام ہیں۔ استنبول کے شہریار ضلع میں قائم اس مسجد میں یہ میلہ انہی کی وجہ سے ہے۔ وہ اپنی رضا کار ٹیم کے ساتھ گاڑیوں سے چیزیں اتارنے میں پیش پیش نظرآتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
پرانی روایت
امام شاکر کے مطابق سلطنت ِ عثمانیہ کے دور میں’سنگ خیرات‘ کی روایت سے متاثر ہوکر انہیں مسجد میں امدادی مرکز بنانے کا خیال آیا۔ عثمانیہ دور میں شہر کے مختلف مقامات پر پتھروں سے ستون بنائے جاتے تھے، جہاں امیر افراد غریبوں کے لیے اپنی خیرات رکھ جایا کرتے تھے۔
تصویر: DW/S. Rahim
مسجد تک خوراک کون پہنچاتا ہے؟
خوراک سے متعلق سامان ترکی اور بیرون ترکی میں موجود ڈونرز کی طرف سے آتا ہے۔ یہ مسجد نقد رقم قبول نہیں کرتی، مگر اشیائے خوراک یہاں عطیہ کی جا سکتی ہیں۔ کئی ڈونرز خود آ کر چیزیں مسجد کے حوالے کرتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
ضرورت مند کون ہے؟
مسجد کے باہر ایک فہرست لگی ہے، جس پر ضرورت مند افراد اپنا نام اور ٹیلی فون نمبر لکھ جاتے ہیں۔ امام مسجد ان تفصیلات کی چھان بین کرتے ہیں اور پھر ان کی ٹیم کی جانب سے متعلقہ افراد کو ایس ایم ایس بھیجا جاتا ہے کہ آئیے سامان لے جائیے۔
تصویر: DW/S. Rahim
مسجد کا اپنا امدادی طریقہ کار
دیدیمن مسجد سے مدد کے حصول کے لیے ایک طریقہ کار مقرر ہے، مگر ایسا نہیں کہ اگر کوئی انتہائی ضرورت مند امداد لینے مسجد پہنچ جائے تو اسے ٹہلا دیا جاتا ہے۔ ایسے ضرورت مند سے مسجد کے رضاکار چند بنیادی سوالات کرتے ہیں اور اسے سامان مہیا کر دیتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
کپڑے اور جوتے بھی دستیاب ہیں
بعض ڈونرز کی جانب سے ضرورت مندوں کے لیے جوتے اور کپڑے تک مہیا کیے گئے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ماہ رمضان میں خیرات کرنے والے کو کہیں زیادہ ثواب ملتا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
کورونا وائرس کی وبا
ترکی میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اب تک تین ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس وبا کی وجہ سے وہاں مصدقہ کیسز کی تعداد ایک لاکھ پندرہ ہزار ہزار تک پہنچ چکی ہے تاہم اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
سماجی فاصلے کے قواعد مسجد میں بھی رائج
مسجد کی انتظامیہ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے رائج سماجی فاصلےکے قواعد پر عمل درآمد کی کوشش کرتی ہے۔ مسجد کے اندر ایک وقت میں فقط دو افراد داخل ہو سکتے ہیں اور انہیں ہر حال میں ماسک پہننا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
کارگو سے امداد
بہت سے ڈونرز کارگو کے ذریعے امدادی پیکیج اس مسجد کو بھیج رہے ہیں۔ اختتام ہفتہ پر چوں کہ کرفیو ہوتا ہے، اس لیے تب تو یہاں خامشی ہوتی ہے، مگر عام دنوں میں مختلف کارگو کمپنیوں کی گاڑیاں مسلسل اس مسجد تک سامان پہنچاتی دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
ترکی میں کرفیو
ترکی میں اختتام ہفتہ پر کرفیو نافذ کیا جاتا ہے۔ تاہم اب حکومت نے ماہ رمضان میں کرفیو کو تین روز تک پھیلا دیا ہے۔ اب لوگوں کو جمعے کی نصف شب سے اتوار کی نصف شب تک اپنے گھروں ہی میں رہنا ہوتا ہے۔