وبا کے دنوں میں افواہوں کے ٹیکے
30 جون 2021ویکسین سے انسان بانجھ پن کا شکار ہو جاتا ہے، ویکسین کے دو سال بعد انسان مر جائے گا، ویکسین انسان کے ڈی این اے کو بھی تبدیل کر دیتی ہے سے لے کر ویکسین میں چِپ ہوتی ہے جیسی افواہیں ویکسینیشن سینٹر میں گونجتی رہتی ہیں۔
اصطلاح ''افواہ‘‘ سے مراد ہے ''معلومات یا ایسی کہانیاں، جو ایک شخص سے دوسرے شخص تک منتقل ہوں اور یہ حقیقت میں ہوں یا نہ ہوں۔‘‘ افواہیں بڑے پیمانے پر اس حد تک پھیلائی جا سکتی ہیں کہ وہ عوامی طبیعت پر اثر انداز ہو جائیں، یہ اثر اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ ہر ایک فرد کا ہوتے ہوئے بھی کسی کا نہیں ہوتا۔
یہ ہمارے سماجیات کے ایک بابے ڈورکھیم نے کہا تھا۔ ڈورکھیم کی یہ بات اس دن دل پر لگی جب میری ڈیوٹی ویکسینیشن سینٹر میں تھی اور مجھ سے یہ سوالات کیے گئے۔ سوالات پوچھنے والوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے یہ سب سوشل میڈیا پر پڑھ رکھا ہے۔
افواہ تو ویسے بھی افواہ ہوتی ہے مگر سوشل میڈیا پر پہنچتی ہے تو اسے پر لگ جاتے ہیں۔ ماضی کی افواہوں کے مقابلے میں ہمارے دور کی افواہیں زیادہ تیز رفتار ہیں۔ یہ کہنا بلکل غلط نہیں ہو گا کہ سوشل میڈیا افواہوں کا اکھاڑا بھی ہے، جس میں جو چیز پھینکی جائے گی وہ لازمی طور پر دھینگا مشتی کا ماحول مہیا کرے گی۔
یووال نوح ہراری اپنی کتاب سیپیئنز میں لکھتے ہیں کہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے، جسے دوسرے انسانوں کے ساتھ ہی راحت حاصل ہوتی ہے۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ انسان کی زبان کی ابتداء کا سفر افواہوں سے شروع ہوا۔ حضرت انسان جب قبیلوں میں رہتا تھا، تب عدم تحفظ کی بنا پر کہانیاں بنانا لازمی قرار پایا اور ان کہانیوں کے پھیلاو کے لیے آسان رابطے کی کوشش میں زبان تخلیق پائی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ افواہیں ’معلومات کے بڑے پیمانے پر مواصلات کا قدیم ترین وسیلہ‘ رہی ہیں یا پھر انٹرٹینمنٹ کا ایک ذریعہ بھی۔
افواہیں بعض اوقات محدود اور کمزور بھی ہو سکتی ہیں لیکن بسا اوقات وہ سخت جنگی حالات کا پیش خیمہ بن کر سیاسی اور سماجی نظام کو دھرم بھرم بھی کر سکتی ہیں۔ کورونا کے حوالے سے اس وقت، جس طرح کی افواہیں پھیل رہی ہیں، وہ کم و بیش اسی طرح کی سنگین افواہیں ہیں۔ ہنگامی حالات میں پھیلنے والی افواہوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عوامی رائے بن جاتی ہیں، جو درست معلومات مل جانے کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوتی۔
افواہوں کے بیچ اس حقیقت کی بھی یا ایسے کسی سوال کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کہ تیرہ ملین سے زائد افراد پاکستان میں ویکسین لگوا چکے ہیں ان میں اب تک کوئی کیوں نہیں مرا۔ پچاس برسوں سے کبھی پولیو، کبھی خسرے اور کبھی کورونا کے نام پر ہمیں بانجھ پن کے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں مگر آبادی میں مسلسل اضافہ ہی کیوں ہو رہا ہے؟
میڈیکل سائنس پر اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ افواہ اگر فیلڈ کا ہی کوئی شخص یا بظاہر کوئی سمجھدار شخص پھیلا دے تو وہ پتھر پہ لکیر بن جاتی ہے۔ جیسے یہ بانجھ پن والی بات بھی دو جرمن سائنس دانوں نے اڑائی اور سوشل میڈیا کے ہاتھ لگ گئی۔
اب کسی کوئی اس بات پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے کہ تصدیق شدہ اعداد و شمار کے مطابق وائرس سے پیدا ہونے والا انفیکشن مردانہ جنسی قوت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو اسی عظیم طاقت کو بچانے کے لئے ٹیکے لگوا لیں۔ کورونا کا پھیلاو تو ٹیکوں سے کسی نہ کسی طرح رک جائے گا کیا کوئی ایسا ٹیکہ بھی ہے، جو افواہوں کے پھیلاو کو روک سکے؟