ایک نئی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے دور میں پریس کی آزادی پر قدغنیں عائد کی گئیں اور صحافت کا غلط اطلاعات کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال بھی جاری رہا۔
اشتہار
آزادی صحافت سے متعلق بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے 20 اپریل منگل کے روز جو اپنی نئی رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں صحافت کے خلاف جبر و زیادتی اور حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اس تازہ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس سے متعلق ہونے والی پیش رفت پر رپورٹنگ پر تقریباً تمام ممالک میں پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ بعض ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ حکومتوں نے میڈیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اس بحران کا استعمال کیا جبکہ جرمنی سمیت دیگر ممالک میں صحافیوں پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
جرمنی میں آر ایس ایف کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کرسیٹن مہر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، '' کورونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا میں جابرانہ رجحانات کو تقویت بخشی اور انہیں مستحکم کیا ہے۔''
لیکن رپورٹ کے مطابق بہت سے صحافیوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، برازیل کے صدر جیئر بولسونارو اور وینزویلا کے صدر نکولس مدورو جیسے رہنماؤں کی جانب سے غلط معلومات پھیلانے کی کوششوں کو چیلنج کرنے میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
مہر کہتے ہیں، '' غلط انفارمیشن کی وبا کے خلاف آزاد صحافت ہی واحد موثر آلہ کار ہے۔''
یورپ میں بھی پریس کی آزادی مجروح ہوئی
آر ایس ایف کی 2021 کی رپورٹ میں ورلڈ پریس فریڈم کی فہرست میں سب سے اعلی مقام رکھنے والے ایک سے دس تک جو ممالک ہیں اس میں سے سات یورپی ممالک ہیں۔ اس میں ناروے اوّل، فن لینڈ دوئم اور سویڈن سویم نمبر پر ہے جنہوں نے آزادی صحافت کی اچھی طرح سے حفاظت کی ہے۔
اس رپورٹ میں وکی لیکس کے بانی جولین اسانز کے کیس کے حوالے سے برطانیہ پر شدید نکتہ چینی کی گئی ہے جو پہلے کے مقابلے دو نمبر مزید نیچے ہو کر 33ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔ مہر نے برطانیہ کی پوزیشن پر کہا، ''جمہوریت کے مادر وطن کے لیے 33واں مقام قطعی طور اچھی بات نہیں ہے۔''
یونان اور اسپین نے پناہ گزینوں سے متعلق رپورٹنگ پر قدغنیں عائد کرنے کی جس طرح کوشش کی گئیں، رپورٹ میں اس پر بھی نکتہ چینی کی گئی ہے اور اسے، '' آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کا گلا گھونٹنے کے لیے بے بنیاد سیاسی فیصلہ قرار دیا گیا ہے۔''
’میڈیا وائی بلیٹی‘، سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟
سولہ ڈیجیٹل میڈیا اسٹارٹ اپ گروپس ’میڈیا وائی بلیٹی‘ کے لیے کوشاں ہیں۔ میڈیا اداروں کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے اور ’کوالٹی جرنلزم‘ کے لیے انہیں کس طرح کے چیلنجز درپیش ہیں؟ آئیے جانتے ہیں، انہیں کی زب
تصویر: DW Akademie
ڈیجیٹل میڈیا کے بانی
سولہ ڈیجیٹل میڈیا اسٹارٹ اپ گروپس ’میڈیا وائی بلیٹی‘ کے لیے کوشاں ہیں۔ میڈیا اداروں کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے اور ’کوالٹی جرنلزم‘ کے لیے انہیں کس طرح کے چیلنجز درپیش ہیں؟ آئیے جانتے ہیں، انہیں کی زبانی۔
تصویر: DW Akademie
لیکا آنٹڈاز، جورجیا
میڈیا پلیٹ فارم ’چائے خانہ‘ کی بانی لیکا آٹنڈاز کے بقول سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ غیرجانبدار اور منصفانہ رہا جائے، اور ساتھ ہی ان کا میڈیا ادارہ طویل المدتی بنیادوں پر پائیدار مالی مسائل سے بے فکر ہو جائے تاکہ توجہ وفادار صارفین یا آڈئینس بنانے پر صرف کی جائے۔
تصویر: DW Akademie
تانیا مونٹالوو، میکسیکو
’اینیمل پولیٹیک‘ سے وابستہ تانیا منٹالوو کا کہنا ہے کہ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج آزادی اور بلا روک ٹوک معیاری صحافت کرنا ہے۔ ہر وقت یہ ذہن میں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے قارئین کے لیے ایسی کہانیاں موضوع سخن بنائیں، جو ان سے متعلق ہیں یا ان کی زندگیوں پر فرق ڈالتی ہیں۔
تصویر: DW Akademie
ٹیڈیانے ہاماڈو، سینیگال
ڈیجیٹل میڈیا ادارے ’اویسٹف نیوز‘ سے منسلک ٹیڈیانے ہاماڈو کا اصرار ہے کہ اس بات کا یقینی بنانا ضروری ہے کہ عوام کو علم ہو کہ آزاد میڈیا ان کے لیے کیا کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ سینیگال میں میڈٰیا پراجیکٹس میں تعاون فراہم کیے جانے کی روایت نہیں ہے۔
تصویر: DW Akademie
پنگ جن تھم، سنگاپور
’نیو ناراتف‘ نامی ڈیجیٹل میڈٰیا پلیٹ فارم کے لیے فعال پنگ جن تھم سمجھتے ہیں کہ جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں میڈیا فریڈم کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ ان کے نزدیک بڑے مسائل میں حکومتوں کی طرف سے میڈٰیا مخالف قانون سازی اور میڈیا مالکان کا حکومت کے ساتھ ساز باز ہے۔
تصویر: DW Akademie
لوسیا مینینڈز، گوئٹے مالا
’نوماڈا گوئٹے مالا‘ نامی ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم کی روح رواں لوسیا مینینڈز کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ملک میں کامیاب ممبر شپ پروگرام کس طرح شروع کیا جائے، کیونکہ ان کے خیال میں گوئٹے مالا کے لوگوں میں ’کوالٹی جرنلزم‘سے کوئی رغبت نہیں ہے۔
تصویر: DW Akademie
کائریلو لوکرنکو، یوکرائن
ہرومڈسکے ریڈیو سے وابستہ کائریلو لوکرنکو اپنے ملک میں میڈیا وائی بلیٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج قانون کی بالا دستی کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ میڈیا مارکیٹ اور پبلک میڈیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: DW Akademie
لوسیا مارٹینیز، ارجنٹائن
ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ’چیکیدو‘ کی بانی لوسیا مارٹینیز کا کہنا ہے کہ ایسا آزاد نیوز ادارہ بنانا سب سے بڑا چیلنج ہے، جہاں عوام کو متاثر کرنے والے حقیقی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھا جائے۔ ان کے نزدیک اس طرح کی معیاری صحافت کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
تصویر: DW Akademie
ڈیوڈ ہڈالگو ویگا، پیرو
’اوجا پبلکو‘ نامی ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم کے لیے کام کرنے والے ڈیوڈ ہڈالگوویگا کہتے ہیں کہ لاطینی امریکی ممالک میں سب سے بڑا چیلنج دراصل صحافت کے لیے پائیدار اور اختراعی طریقہ کار اختیار کرنا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو عوامی مفاد میں اچھی جرنلزم بھی ممکن ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW Akademie
رومان فلیپو، مالدوا
نوجوان ڈیجیٹل میڈیا ایکپسرٹ رومان فلیپو کے بقول ’خطے بھر میں غیرجابندار اعلیٰ کوالٹی کی پراڈکٹ بنانا ایک چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر میڈیا اداروں کے مالکان اشرافیہ سے ملے ہوئے ہیں اور وہ جانبدار ہیں۔
تصویر: DW Akademie
تامارہ قاریئن، اردن
مسلم ملک اردن میں فعال تامارہ نے میڈیا وائی بلیٹی کے لیے اپنا سب سے بڑا چیلنج ، ’’ریونیو، لیڈرشپ اور آرگنائزشنل چیلنجز‘‘۔ کو قرار دیا۔
تصویر: DW Akademie
11 تصاویر1 | 11
اس رپورٹ میں جرمنی پر بھی نکتہ چینی کی گئی ہے۔ اس کے مطابق جرمنی میں سازشی نظریات کے حامل افراد نے لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہروں کے دوران متعدد بار صحافیوں پر حملے کیے جس کی وجہ سے جرمنی اس فہرست میں 13 ویں نمبر پہنچ گیا۔
اشتہار
دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے خطرناک صورت حال
بیلا روس میں گزشتہ برس تقریبا 400 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور اس طرح اس کی رپورٹ کافی خراب رہی۔ اس مشرقی یورپی ملک نے پریس کی آزادی پر اس طرح کی پابندیاں عائد کیں کہ عالمی اسکور میں یہ بدترین سطح پر پہنچ گیا اور 180 ممالک کی فہرست میں اس کا مقام 158 ویں نمبر پر ہے۔
روس کی حالت پہلے کے مقابلے تھوڑی بہتر ہوئی ہے جس کی پوزیشن 150 ویں ہے۔ بیشتر افریقی ممالک میں صحافت اور آزادی پریس کے حالات اوسطاً خراب رہے اور اس فہرست میں عالمی سطح پر ایریٹیریا کا مقام سب سے نیچے ہے۔
ص ز/ ج ا (الیکس بیری)
آزادیٴ صحافت کا عالمی دن: ڈی ڈبلیو کے نامہ نگاروں کے تاثرات