ورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجلاس
28 جنوری 2009سوئٹزرلینڈ کے سیاحتی علاقے ڈاووس میں جاری ورلڈ اکنامک فورم کے پہلے دن، توقع کے عین مطابق، مرکزی موضوع حالیہ عالمی اقتصادی بحران رہا۔ فورم میں شریک چالیس سے زائد ممالک کے سربراہان کو اس فورم کے دوران غیر سرکاری تنظیموں کے اراکین، ٹریڈ یونین ممبرز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین سے ملاقاتیں کرنے کا موقع ملے گا۔
ورلڈ اکنامک فورم کے صدر KLAUS SCHWABکہتے ہیں: ’’لوگوں کو آہستہ آہستہ پتا چل رہا ہے کہ یہ مسئلہ کتنا سنجیدہ ہے اور کتنا پیچیدہ کیونکہ ہمیں ایک وقت میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمیں ایک ایسے بحران کا سامنا ہے جو کہ عالمی معیشت میں عدم استحکام کے باعث پیدا ہوا ہے۔ ہمیں مالیاتی بحران کا سامنا ہے۔ ہمیں عدم استحکام کا مسئلہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ نظام کی تباہی کا معاملہ ہے۔‘‘
ڈاووس میں جاری مختلف سیشنز کے دوران، مالیاتی بحران سے پریشان اداروں کے سربراہان اور پالیسی سازاداروں کے نمائندگان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بحران سے نکلنے کا کوئی حل نظر نہیں آرہا اور یہ کہ موجودہ نظام اتنا نازک ہے کہ عالمی معیشت کو پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑاہونے میں اٹھارہ سے چوبیس ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ کی پیش گوئی ہے کہ عالمی معیشت کی ترقی کی رفتار جوں کی توں رہنے کی امید ہے۔
چینی وزیر اعظم وین جیاباؤ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن سیاسی اور کاروباری اداروں کے سربراہان سے خطاب کریں گے اور موجودہ مالیاتی بحران سے نکلنے کے لیے ان کے پاس کیا حل ہے اس کا تفصیلی ذکر ہو گا۔
اپنے اپنے ملکوں کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرنے والے برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل سمیت چالیس کے قریب سربراہان مملکت اس فورم سے خطاب کریں گے۔