1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ورلڈ ٹی وی ڈے‘، پاکستان میں ٹی وی کا بدلتا چہرہ

تنویر شہزاد، لاہور21 نومبر 2013

منگل 21 نومبر کو دنیا بھر کی طرح ٹیلی وژن کا عالمی دن پاکستان میں بھی منایا گیا، جہاں گزشتہ دس برسوں میں ٹی وی انڈسٹری نے بہت ترقی کی ہےاور 27 ملین گھرانوں میں سے 18 ملین گھرانے ایسے ہیں، جہاں آج ٹی وی دیکھا جا رہا ہے۔

تصویر: Tanveer Shahzad

پاکستا ن کےسابق وفاقی وزیر اطلاعات جاوید جبار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس وقت پاکستان میں قانونی طور پر 126 چینلز دکھائے جا رہے ہیں، جن میں سے 90 چینلز پاکستانی ہیں۔ ان میں سے 35 نیوز چینلز ہیں اور باقی پاکستانی چینل ڈرامہ، سپورٹس،میوزک، فیشن،کوکنگ اور مذہبی موضوعات سے متعلق ہیں۔

پاکستان میں 19 علاقائی چینل بھی کام کر رہے ہیں جبکہ غیر ملکی چینلز کی تعداد 30 ہے۔ جاوید جبار کے مطابق پاکستان دنیا کا انوکھا ملک ہے، جہاں ہر کیبل آپریٹر کو پانچ لوکل چینل چلانے کی اجازت ملی ہوئی ہے اور ملک کے 2200 کیبل آپرییڑ مل کر دس ہزار سے زائد ایسے مقامی چینل چلا رہے ہیں، جن پر کسی سینسر کے بغیر غیر قانونی طور پر غیر ملکی مواد بھی دکھایا جا رہا ہے۔

نئے نئے ٹی وی چینلز کے آنے سے پہلے ایک عرصے تک پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی کو اجارہ داری حاصل رہی ہےتصویر: Tanveer Shahzad

جاوید جبار کے بقول اتنے زیادہ چینلز کو مانیٹر کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ٹیلی وژن کے سرکاری کنٹرول سے آزاد ہونے کے بعد رائے، تجزیے اور خبر پر محدود لوگوں کی اجارہ داری ختم ہو گئی اور پاکستانی نوجوانوں کے ٹیلنٹ اور صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں کافی مدد ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسری طرف بلاشبہ سنسنی خیزی کو بھی فروغ ملا ، اشتہارات خبری مواد پر حاوی ہو گئے اور ٹی وی نشریا ت کے حوالے سے اہم فیصلے عوامی مفاد کی بجائے ریٹنگ اور اشتہارات کی بنیاد پر ہونے لگے۔ جاوید جبار کی رائے میں ان حالا ت میں میڈیا کو اپنے کردار پر خود نظر ڈالنی چاہیے۔

ابلاغی امور پر تحقیق کرنے والے ایک کالم نگار سلمان عابد کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں ٹی وی ایک طاقتور ٹول بن گیا ہے اور وہ جس طرح کا معاشرہ دکھاتا ہے، معاشرے کے لوگ اسی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستانی میڈیا میں کمرشلائزیشن اور کارپوریٹائزیشن کا بڑھتا ہوا کردار پاکستانی معاشرے کے سوشل فیبرک یا سماجی ڈھانچے کو متاثر کر رہا ہے۔

نجی ٹی وی چینل نئی نئی قسم کے پروگرام ناظرین کے لیے پیش کر رہے ہیں، جیسے کہ رمضان کے مہینے میں عامر لیاقت حسین کی میزبانی میں پیش کیا جانے والا یہ پروگرامتصویر: ASIF HASSAN/AFP/Getty Images

سلمان عابد کے بقول پاکستانی ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں اونچی آواز میں بات کرنے کا رجحان مکالمے کے کلچر کو فروغ نہیں دے رہا بلکہ الٹا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی میڈیا فتوے صادر کرنا چاہتا ہے اور اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان کے ٹی وی چینلز زیادہ سیاسی ہو گئے ہیں اور سماجی مسائل پیچھے رہ گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اپنا ایجنڈا دوبارہ ترتیب دینا چاہیے۔ سلمان عابد کو یہ بھی دکھ ہے کہ پاکستان میں ٹی وی انڈسٹری کی ترقی کے باوجود زیادہ تر کارکن صحافیوں کے معاشی حالات میں متوقع بہتری نہیں آئی۔

انسٹیوٹ آف میڈیا سائنسز رفاہ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر سید ریحان حسن نے پاکستانی ٹی وی چینلز کے نئے رجحانات کے حوالے سے بتایا کہ پاکستانی ٹی وی چینلز میں پروگرام پیٹرن کی نقالی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ اب بھارت، ترکی، ایران اور سپین کے ساتھ ساتھ عرب ملکوں کا مواد بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان کے بقول آنے والے دنوں میں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کے عام ہونے کی صورت میں موبائل فون ٹی وی کے پرانے ڈبے کی جگہ لے لے گا اورٹی وی نشریات پیش کرنے کے انداز میں بھی تبدیلیا ں آ سکتی ہیں۔

پاکستانی ٹی وی انڈسٹری میں مارکیٹنگ کا بائیس سالہ تجربہ رکھنے والے اکبر سید کہتے ہیں کہ پاکستان میں الیکڑانک میڈیا کو ہر سال پچیس ارب روپے کے اشتہار ملتے ہیں۔ ان میں سے ٹیلی وژن کے حصے میں بائیس ارب روپے آتے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کے ٹی وی چیلنز کو اپنی معاشی ترقی کے لیے معیار کی بہتری کے ساتھ ساتھ عوام میں اپنی ساکھ کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں