عنقریب قطر میں شروع ہونے والے فٹ بال کے عالمی کپ کے منتظمین ان دنوں ایک بہت ہی دلچسپ اسکیم پر کام کر رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ شائقین ایک طرح سے کھیل کا حصہ ہوں گے اور انہیں پرکشش سہولیات بھی میسر ہوں گی۔
اشتہار
ذرا تصور کریں کہ آپ فٹ بال کا عالمی کپ دیکھنے کے لیے قطر میں ہوں۔ ایک پرکشش لگژری ہوٹل میں آپ کا قیام ہو۔ خرچے کے لیے آپ کو یومیہ الاؤنس مل رہا ہو اور آپ کے لیے میچ کی ٹکٹیں بھی مفت ہوں۔ اس کے بدلے میں آپ کو کام صرف یہ کرنا ہو کہ میچوں سے قبل چیئر لیڈر کی طرح کچھ ہلہ گلہ اور سوشل میڈیا پر چند کمینٹس لکھنا۔ بس یہی!
دوحہ قطر کا دارالحکومت ہے، جو اس سال فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ صحرا کی سیر سے لے کر شاندار فن تعمیر تک، اس شہر میں دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
تصویر: nordphoto GmbH/PIXSELL/picture alliance
قطر کا ثقافتی مرکز، دوحہ
قطر ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست ہے، جس کا رقبہ تقریباً 11,500 مربع کلومیٹر (4,468 مربع میل) ہے۔ اس کے مقابلے میں آئرلینڈ سات گنا بڑا ہے۔ صدیوں پرانی روایات اور ہائپر ماڈرن فن تعمیر کے اثرات اس وسطی مشرقی امارات میں ملتے ہیں، خاص طور پر اس کے دارالحکومت دوحہ میں۔ قطر کی آبادی کی اکثریت ملک کے مالیاتی، ثقافتی اور سیاحتی مرکز میں رہتی ہے۔
تصویر: nordphoto GmbH/PIXSELL/picture alliance
ڈاون ٹاؤن دوحہ، ویسٹ بے کی سیر
دوحہ ایک جدید ترین شہر ہے، جو اپنی دولت کی خوب نمائش کرتا ہے۔ تیل اور گیس کے بے پناہ ذخائر قطر کے باشندوں کو دنیا میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی 98 ہزار یورو فراہم کرتے ہیں۔ 2.8 ملین آبادی میں سے صرف دس فیصد قطری شہری ہیں۔ ویسٹ بے ڈسٹرکٹ میں فلک بوس عمارتیں تخلیقی فن تعمیر کا منظر پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Kamran Jebreili/AP/dpa/picture alliance
ماضی کی سیر، کتارا کلچرل ویلیج
تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ قطر کو اصل میں 'کتارا' کہا جاتا تھا۔ مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے درمیان اپنے جغرافیائی مقام کی وجہ سے یہ ملک خود کو ثقافتوں کے امتزاج کے طور پر دیکھتا ہے۔ سن 2010 میں کھولا گیا "کتارا کلچرل ویلیج" اپنے عجائب گھروں، گیلریوں اور تقریبات کے ساتھ یہی پیغام دینا چاہتا ہے۔ شہر کے مرکز سے صرف 10 منٹ کی ڈرائیو پر یہاں پہنچا جاسکتا ہے۔
تصویر: Marina Lystseva/TASS/dpa/picture alliance
مذہب، جب اذان کی آواز گونجتی ہے
قطر ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں بسنے والے زیادہ تر افراد سنی مسلمان ہیں۔ دن میں پانچ مرتبہ اذان کی پکار لوگوں کو خوبصورت مساجد کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ دوحہ میں واقع قطر کی قومی امام عبدالوہاب مسجد میں تیس ہزار افراد جمع ہو سکتے ہیں۔ غیر مسلم افراد نماز کے اوقات کے علاوہ مساجد کی سیر کر سکتے ہیں۔
تصویر: Nikku/Xinhua/dpa/picture alliance
شاپنگ مالز، ایک الگ دنیا
قطر میں شاپنگ مالز بہت بڑے پیمانے پر تعمیر کیے گئے ہیں اور ہر ایک مال کی اپنی ایک دنیا ہے۔ وہ نہ صرف خریداری کے لیے بنائے گئے ہیں — کچھ میں تھیم پارکس، سینما گھر اور ریستوراں بھی موجود ہیں۔ ایک مال میں آپ 'سنو مین' بنا سکتے ہیں جبکہ دوسرے میں آپ گونڈولیئر کے ساتھ کشتی میں سفر کر سکتے ہیں اور ایسا لگے گا کہ آپ وینس میں ہیں۔ یہ مالز 50 ڈگری درجہ حرارت میں گرمی سے بچنے کے لیے بہترین جگہیں ہیں۔
دوحہ میں واقع 'سوق واقف' قطر کی سب سے قدیم مرکزی مارکیٹ کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کی اصل عمارت سن 2003 میں آگ لگنے سے تباہ ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود تاجر یہاں ایک صدی سے زائد عرصے سے کپڑے، دستکاری، مصالحہ جات اور دیگر سامان فروخت کر رہے ہیں۔ یہ سووینئرز جمع کرنے یا شام کو ٹہلنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔
تصویر: Igor Kralj/PIXSELL/picture alliance
نیشنل میوزیم، ریت اور سمندر کی شبیہ
قطر کے قومی عجائب گھر کا فوارہ، جس کی شکل موتیوں کی لڑی کی طرح ہے۔ پرل ڈائیونگ ملک کی تاریخی روایات میں سے ایک ہے۔ قطر کئی سالوں سے موتیوں کی تجارت کا مرکز تھا۔ یہ عمارت خود صحرائی گلاب کی شکل میں بنائی گئی ہے اور یہ معروف فرانسیسی معمار ژان نوویل نے تعمیر کی ہے۔ یہ قطر کے ثقافتی ورثے کے بارے میں جاننے کے لیے بہترین جگہ ہے۔
تصویر: Sharil Babu/dpa/picture alliance
فن تعمیر، فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز
زہا حدید، سر نورمین فوسٹر اور ریم کولہاس جیسی معروف فن تعمیر کی کمپنیاں قطر میں اپنی سنسنی خیز عمارتوں کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ اسکول آف اسلامک اسٹڈیز کی خوبصورت عمارت کو لندن اور بارسلونا میں قائم مینگیرا یوار آرکیٹیکٹس نے ڈیزائن کیا ہے۔ اس تخلیقی فن پارے میں عربی خطاطی میں درج حروف ایک مستقبلی ڈیزائن میں ضم ہو رہے ہیں۔
تصویر: Kamran Jebreili/AP/dpa/picture alliance
میوزیم آف اسلامک آرٹ
دوحہ کے میوزیم آف اسلامک آرٹ کو چینی نژاد امریکی معمار آئی ایم پائی نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کے اہم ترین عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔ سادہ لیکن خوبصورت عمارت، جو پانی پر تیرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں اسلامی فن، قیمتی مسودے، سیرامکس، زیورات، ٹیکسٹائل اور بہت کچھ نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: Norbert SCHMIDT/picture alliance
صحرا کی سیر
ملک کا زیادہ تر حصہ صحرائی مناظر پر مشتمل ہے۔ ڈیزرٹ سفاری کے لیے ریت کے ٹیلوں پر بہت سے سیاح اونٹ کی سواری یا جیپ کی سیر کا انتخاب کرتے ہیں۔ صحرا میں ایسے خاص خیمے بھی موجود ہیں، جہاں سیاح شب بسر کر سکتے ہیں۔
دوحہ میں سیر کے لیے صحرا سمیت طویل ساحلی پٹی موجود ہے۔ کٹارا بیچ کے نام سے یہاں ایک عوامی ساحل بھی ہے مگر یہاں نہانے کی اجازت صرف اس صورت میں ہے جب آپ نے مذہبی اعتبار سے مناسب لباس زیب تن کیے ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ خواتین کے لیے کوئی بکنی یا ون پیس باتھنگ سوٹ نہیں۔ آپ یہاں روایتی کشتیوں میں سوار ہو کر یا کارنیشے پر چہل قدمی کر کے سمندر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Serdar Bitmez/AA/picture alliance
11 تصاویر1 | 11
سننے میں ناممکن سی یہ بات حقیقت بننے کو ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے زیر غور دستاویزات اور متعلقہ افراد کے حوالے سے بتایا ہے کہ قطری منتظمین اس اسکیم پر کام کر رہے ہیں۔ منتظمیں نے تصدیق کر دی ہے کہ بتیس ممالک سے چند مداحوں کو مدعو کیا گیا ہے مگر ان اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں کہ ان کو 'منظم اشتہاری مہمات‘ کے لیے بلایا اور معاوضہ دیا جا رہا ہے۔
قطر نے سینکڑوں فٹ بال بلاگرز، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اثر و رسوخ رکھنے والے اور مداحوں کی انجمنوں کے رہنماؤں سے رابطہ کیا اور انہیں 'فین لیڈر‘ بنانے کی پیشکش کی۔ مداحوں کے ایک گروپ، جس سے سن 2021 میں رابطہ کیا گیا، کے ترجمان فیبین بونیل نے بتایا، ''وہ چاہتے تھے کہ ہم فرانسیسی شائقین کے متاثر کن بن کر ان کی تشہیر کریں اور اس ورلڈ کپ کو قطر میں فروخت کریں۔‘‘
دیگر چند گروپ بھی زیادہ مطمئن نہ تھے۔ فٹ بال سپورٹرز یورپ نیٹ ورک کے رونن ایوین نے بتایا، ''ایک چیز یقینی ہے، بہت سے لوگوں نے انکار کر دیا ہے۔ یہ پیشکش 'حقیقی پرستار کی سوچ‘ سے دور ہے۔‘‘ آرگنائزنگ کمیٹی نے البتہ کہا کہ 59 ممالک کے 450 سے زیادہ شائقین نے اسکیم میں شرکت کی حامی بھر لی ہے۔
اسکیم کی شرائط کے مطابق ہر فین لیڈر کو میچ سے قبل مخالف ٹیم کے ملک سے 30 سے 50 کے درمیان لوگوں کا انتخاب کرنا ہے، جنہیں 20 نومبر کو ہونے والے افتتاحی کھیل میں مدعو کیا جائے گا۔ انہیں قطر لے جایا جائے گا اور ایک کمرے میں دو دو افراد کو رکھا جائے گا۔ انہیں پہلے سے لوڈ شدہ ویزا کارڈ پر یومیہ 68 امریکی ڈالر بھی ملیں گے۔ بدلے میں ان سے توقع کی جائے گی کہ وہ افتتاحی تقریب کو پر کشش بنائیں اور ضابطہ اخلاق پر دستخط کریں۔