1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وزیرستان آپریشن : وطن واپس جانے کا انتظار

دانش بابر27 جون 2014

شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے لاکھوں متاثرین پاکستان کے دوسرے محفوظ علاقوں کا رخ کر رہے ہیں اور ان کی مدد اور بحالی کے لئے حکومتی اور غیر سرکاری ادارے کوشاں ہیں۔

تصویر: Danish Baber

اپنے گھراور سازوسامان چھوڑ کر میرعلی، میرانشاہ، دتہ خیل اور شمالی وزیرستان کے دوسرے حصوں سے جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین کی تعداد کے بارے میں کمشنر افعان مہاجرین محمد عباس خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا۔
''ہم نے سیدگی رجسٹریشن پوائنٹ پر متاثرین کو رجسٹر کرنے کے دوران جو اعداد وشمارجمع کئے ہیں، اس کے مطابق ان متاثرین کی تعداد ساڑھے چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور 36 ہزار خاندان اس وقت ہمارے پاس رجسٹرڈ ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر ہم ان لوگوں کو بھی اس تعداد میں شامل کریں جو رجسٹریشن سے پہلے بنوں یا دوسرے علاقوں میں نقل مکانی کر گئے ہیں تو اس طرح یہ تعداد چھ لاکھ سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ ان متاثرین کے امدادی پیکج کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد عباس کا کہنا تھا۔
''حکومت ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت ان سب متاثرین کو ایک فوڈ باسکٹ دے رہا ہے جس کا وزن 93 کلو تک ہے جس میں ایک ماہ کے لئے خوراک کا سامان ہوتا ہے، اس کے علاوہ مرکزی حکومت کی جانب سے ہر خاندان کو 12 ہزار روپے بھی دیے جاتے ہیں، اس رقم میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘

70 سالہ جمال وزیر اپنے گاؤں لوٹنے کی راہ تک رہا ہےتصویر: Danish Baber


دوسری طرف ستر سالہ بزرگ جمال وزیر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے علاقے میرانشاہ میں اپنی باقی زندگی گزارنا چاہتا ہے، دوران سفر اپنی تکلیفات بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔
''راستے میں ہم سب کو بہت تکلیفیں اٹھانا پڑیں، یہاں تک پہنچنے کے لئے میں نے ایک دن اور ایک رات پیدل سفر کیا ہے، ہم سب بیمار ہیں، انشااللہ اگر ہمارے علاقے کے حالات ٹھیک ہوگئے تو میں یہاں ایک گھنٹہ بھی نہیں رکنا پسند کرونگا میں واپس اپنے گھر جاؤنگا۔‘‘
مینہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا لیکن اب وہ مجبور ہے ،سخت گرمی میں قطار میں کھڑے ہوکر راشن کا انتظار کرتی ہے۔ اپنا گھر چھوڑنے کے بارے انہوں نے ڈی ڈبلیو کوبتایا۔
''مجھے ایک خط دیا گیا جس میں لکھا تھا کہ وہ اپنا علاقہ تین دنوں کے اندر خالی کریں، مجھے ابھی تک یہ نہیں پتا کہ یہ خط کس کی طرف سے تھا، یہ فوجیوں کا لکھا تھا یا طالبان کا ؟ بس ہم نے اور لوگوں کی طرح اپنا گھر خالی کر دیا اور یہاں آگئے، ہمارا علاقہ بہت خوبصورت ہے، وہاں اتنی گرمی نہیں تھی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ رمضان کا مبارک مہینہ اپنے گھر میں گزارے کیونکہ کیمپ رہنے کے قابل نہیں ہیں۔

ساڑھے چار لاکھ سے زائد شہری متاثر ہوئے ہیںتصویر: A Majeed/AFP/Getty Images


بنوں کے علاقے میں متاثرین کے کیمپس اورراشن تقسیم کرنے کے پوائنٹس کے نگران پاک آرمی کے کرنل منصورکا کہنا ہے کہ ان کو نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے دکھ کا احساس ہے ، ان کو یقین ہے کہ بہت جلد حالات معمول پر آجاینگے۔ حالات کے پیش نظر پاک آرمی اور پولیس فورس کے جوان تمام حساس مقامات پر چوکس ہیں۔ وہ متاثرین کی حوصلہ افرائی کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
''صبر کا دامن تھامے رکھیں حکومت اور پاکستانی فوج ہر گھڑی ان کے ساتھ ہے اور ان کے لئے بہتر سے بہتر اقدام کی کوشش کرینگے۔‘‘
لیکن دوسری طرف ضرب عضب کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین کا کہنا ہے کہ حکومت جلد ازجلد ان کے علاقوں میں فوجی آپریشن کا خاتمہ کرے تاکہ یہ لوگ واپس جاکر اپنی معمول کی زندگی دوبارہ شروع کر سکیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں