1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وزیرستان میں امریکا کا ایک اور ڈرون حملہ

19 نومبر 2010

شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ کے قریب آج ایک اور ڈرون حملہ کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے ۔

تصویر: AP

پاکستانی انٹیلی جنس حکام کے مطابق امریکی جاسوس طیارے سے حملہ افغانستان اور پاکستان کے باڈر کے قریب ایک چلتی گاڑی پر کیا گیا، جس میں مبینہ طور پر شدت پسند موجود تھے۔

پاکستانی حکام کے مطابق رواں برس کے دوران وزیرستان میں ایک سو کے قریب ڈرون حملے کئے گئے

یہ حملہ امریکہ کی جانب سے القاعدہ اور طالبان کے ٹھکانوں کو ڈھونڈنے اور ان کے خلاف کاروائی میں مزید تیزی لانے کے مشن کا ایک حصہ تھا، جس کے تحت پاکستان میں ایک ہفتے کے دوران دوسری بار یہ کارروائی کی گئی ہے۔ حملے میں ہلاک ہو جانے والوں کی فوری طور پر شناخت نہیں ہو سکی ہے۔

حملے کے بارے میں پاکستانی سکیورٹی حکام کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکی جاسوس طیارے سے دو میزائل داغے گئے تھے، جس کے نتیجے میں کم سے کم تین عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں کا تعلق طالبان اور القاعدہ کے حقانی نیٹ ورک سے بتایا گیا ہے۔ حقانی گروپ پر الزام ہے کہ وہ افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک میں متعین امریکی افواج پر خودکش حملوں کے علاوہ یورپ کے بعض ممالک میں بھی دہشت گردانہ حملوں کے منصوبے بنانے میں ملوث ہے۔

پاکستان میں ڈرون حملوں کا سلسلہ امریکہ کی جانب سے پاکستان میں ڈرون حملوں کا سلسلہ 1994 سے شروع ہواتصویر: AP

اس سے تین دن پہلے بھی امریکی جاسوس طیارہ میران شاہ میں حملہ کر چکا ہے، جس کے نتیجے میں پندرہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے تھے۔ امریکہ کے مطابق جاسوس طیاروں کے حملے القاعدہ اور اس کے دیگر اتحادیوں کے خلاف کارروائیوں میں نہایت مؤثر ثابت ہو رہے ہیں اور اب تک کئی مطلوبہ اہدف، جن میں پاکستانی طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود بھی شامل ہیں،کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

آج کا یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب امریکی صدر باراک اوباما اور نیٹو ممالک کے سربراہان پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں جمع ہیں تاکہ 2014ء تک افغانستان میں امن و امان کی ذمہ داری وہاں کی مقامی فورسز کو منتقل کرنےکی تاریخ مقرر کی جائے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں