1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وزیرستان میں ڈرون حملے، پاکستان کی طرف سے مذمت

شکور رحیم، اسلام آباد12 جون 2014

پاکستانی حکومت نے ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں دو نئے امریکی ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں پاکستان کی ریاستی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جمعرات کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے حملوں سے پاکستانی حکومت کی ملک اور خطے میں امن و استحکام کے لیے کوششوں پر منفی اثرا ت مرتب ہوتے ہیں۔ خیال رہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے گزشتہ تقریباﹰ چھ ماہ سے پاکستان میں اپنے ڈرون آپریشن روک رکھے تھے اور نئے حملے اس سال قبائلی علاقوں پر امریکا کی جانب سے کیے گئے پہلے ڈرون حملے ہیں۔

یہ حملے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ہوائی اڈے پر دہشت گردانہ حملوں کے تین دن بعد کیے گئے ہیں۔ کراچی ایئر پورٹ پر حملے میں حملہ آوروں سمیت کم از کم 35 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری پہلے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور پھر اسلامک موومنٹ آف ازبکستان نے قبول کر لی تھی۔ امریکی ڈرون حملوں کے بعد پاکستان کے مقامی میڈیا سے ایسی خبریں بھی نشر کی گئی تھیں کہ ان حملوں میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کےشدت پسند بھی ہلا ک ہوئے ہیں۔

پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ,فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

حزب اختلاف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی عدیل کا کہنا ہے کہ ازبک شدت پسندوں کی ہلاکت پر عام پاکستانیوں کو کوئی پریشانی نہیں بلکہ خوشی ہوئی ہو گی۔ انہوں نے کہا، ’’اصولی طور پر تو ہم کہتے ہیں کہ ہماری زمین پر اور فضائی حدود میں کوئی ہماری مرضی کے بغیر نہ آئے۔ ڈرون آتا ہے تو بھی ہماری ملکی فضاؤں کی خلاف ورزی کرتا ہے لیکن یہ چیچن، عرب، افغان اور ازبک جو بیٹھے ہیں، کیا انہوں نے ہماری زمینی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی۔ بعض علاقے تو مقبوضہ ہو گئے ہیں۔‘‘

امریکا کی جانب سے چھ ماہ کے وقفے سےکیے گئے ڈرون حملوں نے پاکستان میں ایک مرتبہ پھر اس بحث کو بھی زندہ کر دیا ہے کہ آیا یہ حملے پاکستانی حکومت کی مرضی سے ہو رہے ہیں، کیونکہ بظاہر سرکاری طور پر تو ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے لیکن کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں پاکستانی حکومتوں کی غیر اعلانیہ رضا مندی شامل رہی ہے۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار ایئر مارشل ریٹائرڈ مسعود اختر کا اس بارے میں کہنا ہے، ’’جو دفتر خارجہ کہتا ہے وہ کیونکہ مخالف رد عمل، جو ملک کے اندر سے ہونا ہے اور جو غیر ریاستی عناصر کی طرف سے ہونا ہے، اس کی وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ ورنہ تقریباﹰ اس کی منظوری ہے کہ آپ ڈرون حملے کر سکتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں دو ہزار آٹھ کے بعد سے امریکی ڈرون طیاروں سے میزائل حملوں میں تیزی آئی اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک ان حملوں میں تین ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ڈرون حملوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ تاہم امریکی حکام انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک مؤثر ہتھیار سمجھتےہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں