وزیر اعظم پر صدر کے خلاف مقدمات کھولنے کا سپریم کورٹ کا دباؤ
12 جولائی 2012پاکستانی صدر آصف علی زرداری کی جانب سے بدھ کو قدر تیزی سے توہین عدالت کے نئے قانون پر دستخط کرنے کے باوجود ملکی سپریم کورٹ نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو حکم دیا ہے کہ صدر زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھلوانے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھیں ورنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔
عدالت نے این آراو پرعملدرآمد کی رپورٹ جمع کرانے کے لیے 25 جولائی تک کی مہلت دی ہے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نےاین آراو عملدرآمد کیس کی سماعت کی ۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے عدالتی حکم من وعن وزیراعظم تک پہنچا دیا تھا۔ اٹارنی جنرل کے مطابق وزیراعظم نے انہیں آگاہ کیا ہے کہ وفاقی کابینہ کے منگل کے روز ہونے والے اجلاس میں این آر او پر عملدرآمد سے متعلق معاملہ وزارت قانون کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزارت قانون اس حوالے سے اپنی سفارشات مرتب کر کے کابینہ کو بھجوائے گی جس کے بعد وزیراعظم اور کابینہ سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق فیصلہ کریں گے۔
وزیراعظم کا جواب سننے کے بعد بینچ میں شامل ججوں نے سماعت کے دوران تقریباً دو گھنٹے کا وقفہ کیا ۔ وقفے کے بعد جب عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو بینچ نے وزیراعظم کے جواب کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ وہ سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق عدالتی فیصلے پرعمل کریں ورنہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ عدالت نے این آر او پر عملدرآمد سے متعلق اپنے اس فیصلے کا حوالہ بھی دیا جس کے تحت سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے الزام میں وزارت عظمیٰ اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
عدالتی حکم آنے کے بعد حکومت کی قانونی ٹیم کے ایک رکن فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم قانونی سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ‘‘پیپلز پارٹی واضح کر چکی ہے کہ آئین کے تحت صدر کو استثنیٰ حاصل ہے ان کے خلاف مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا جا سکتا۔ آئین کسی بھی قانون سے زیادہ بالاتر ہے۔''
سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی آئندہ سماعت 25 جولائی کو ہوگی۔ قبل ازیں صدارتی ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظوری کے بعد صدر آصف علی زرداری نے توہین عدالت کے نئے قانون پر دستخط کر دیئے ہیں۔ اس نئے قانون کے مطابق صدر اور وزیراعظم کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزراء اور سرکاری ملازمین کو بھی سرکاری فرائض کی ادائیگی میں توہین عدالت کی کارروائی سے استثنیٰ ہوگا۔
دوسری جانب توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں اب تک 5 درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں۔ ان درخواستوں میں توہین عدالت کے نئے قانون کو آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے تاہم توہین عدالت کے قانون کی بعض شقیں آئین سے متصادم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی بھی قانون سازی نہیں کی جانی چاہیے جو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہو۔
شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: کشور مصطفیٰ