وسطی ایشیائی ریاستیں روسی اور امریکی مسابقت کا ممکنہ میدان
31 اکتوبر 2015ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ یوکرائن اور شام کے بعد امریکا اور روس کی بین الاقوامی جغرافیائی سیاسی مسابقت کا نیا میدان وسطی ایشیائی ریاستیں ہو سکتی ہیں۔ ماسکو حکومت کو خطرہ ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں مسلم انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہونے کے قوی امکانات ہیں اور یہ صورت حال روس کی مسلمان جمہوریاؤں کے اندر بھی افراتفری کا باعث بن سکتی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ روسی تفکرات و پریشانی حقیقت پر مبنی ضرور ہو سکتی ہیں لیکن روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی اِسلامی انتہا پسنی کے تناظر میں وسطی ایشیائی ریاستوں میں غیر معمولی دلچسپی پر امریکی حکام یقین نہیں کرتے۔
روسی اہلکاروں نے یہ وضاحت ضرور کی ہے کہ وہ وسطی ایشیائی مسلمان ریاستوں میں امریکا کے ساتھ کوئی مسابقتی عمل شروع کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن روس کو اِن ریاستوں میں جگہ بناتے اور سر اٹھاتے مسلمان عسکریت پسندوں سے خطرات لاحق ہے۔ اِس روسی احساس کے حوالے سے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک CSIS کے ڈپٹی ڈائریکٹر جیفری مینکوف کا کہنا ہے کہ یہ ایک نئے طرز کے سامراجی نظام کی احیاء دکھائی دیتی ہے اور یہی روس کی جغرافیائی سیاست میں بالادستی قائم کرنے کی خواہش اور کوشش کی ابتداء ہو سکتی ہے۔
جان کیری نے آج ہفتے سے وسطی ایشیا کی پانچ ریاستوں کا پانچ روزہ دورہ شروع کر دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ وسطی ایشیائی رہنماؤں پر واضح کریں گے کہ امریکا انہیں نظر انداز نہیں کر رہا۔ کیری اپنے پانچ روزہ دورے کی پہلی منزل کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک پہنچ گئے ہیں۔ وہ کرغز صدر المازبیگ اَتم بائیف اور وزیر خارجہ سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ کیری کرغزستان کے بعد وہ ازبکستان، قزاقستان، تاجکستان اور ترکمانستان جائیں گے۔ امریکی اہلکاروں کے مطابق کیری کے دورے کا مقصد اِن ریاستوں میں سے روسی اثر و رسوخ کو ختم کرنا قطعاً نہیں ہے۔
امریکی حکام کے مطابق وزیر خارجہ کے اس دورے کا وقت اس لیے انتہائی مناسب ہے کہ ان ریاستوں کو بیرونی دنیا سے اظہار اعتماد کی ضرورت ہے کیونکہ ان ملکوں کو اقتصادی اور سماجی دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کا دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب روسی حکام نے وسطی ایشیائی ریاستوں کو بار بار خبردار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے کہ افغانستان کے عسکریت پسندوں کا خطرہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی صورت میں اِن ملکوں میں سر اٹھا کر ایک نیا بحران پیدا کر سکتا ہے۔
کئی امریکی حلقوں کا خیال ہے کہ روس وسطی ایشیائی ریاستوں کی سلامتی کی صورت حال کو بڑھا چڑھا کے پیش کر رہا ہے اور اصل میں سنگین خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ روس کی فوجیں تاجکستان میں سرحدی نگرانی کے لیے موجود ہیں۔ روس کے تاجکستان اور کرغزستان میں فوجی مراکز کئی برسوں سے موجود ہیں۔ اسی کے مقابلے میں امریکا نے بھی ازبکستان اور کرغزستان میں اپنے ہوائی مراکز قائم کر لیے ہیں۔ تاجکستانی سرحد کے قریبی شہروں قندوز اور خاص طور پر درقد پر طالبان عسکریت پسندوں کے مختصر قبضوں نے وسطی ایشیائی ریاستوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔