وسطی بحیرہ روم، ہر اٹھارہ میں سے ایک مہاجر کی زندگی داؤ پر
3 ستمبر 2018
عالمی ادارہ برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ وسطی بحیرہ روم میں ہر اٹھارہ میں سے ایک تارک وطن ڈوب کر ہلاک ہونے کے خطرے سے دو چار ہے۔ امدادی تنظیموں کے بحری جہازوں کو اس اہم روٹ پر امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
اشتہار
یو این ایچ سی آر کے مطابق گزشتہ برس جنوری اور جولائی کے درمیان وسطی بحیرہ روم کے اس روٹ پر اٹلی کے ساحلوں پر اترنے کے خواہش مند تارکین وطن میں یہ تناسب ہر بیالیس میں سے ایک مہاجر کا تھا۔
جینوا میں قائم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو ایچ سی آر کے مطابق رواں برس اس شرح میں اضافے کی وجہ سرچ اور امدادی کارروائیوں میں کمی آنا ہے۔
یو این ایچ سی آر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب لیبیا کی کوسٹ گارڈ کے دو بحری جہاز امدادی کارروائیاں سر انجام دے رہے ہیں جبکہ سن 2017 میں اس کام میں آٹھ غیر سرکاری این جی اوز کے جہاز بھی شامل تھے۔
ریسکیو جہازوں کو لنگر انداز ہونے اور اٹلی میں قانونی سزاؤں کا بھی مسئلہ درپیش رہتا ہےتصویر: Reuters/J. Medina
نجی امدادی گروپوں کو رپورٹوں کے مطابق لیبیا کی کوسٹ گارڈ کی جانب سے ہراسانی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان تنظیموں کے ریسکیو جہازوں کو لنگر انداز ہونے اور اٹلی میں قانونی سزاؤں کا بھی مسئلہ درپیش رہتا ہے۔
عالمی ادارہ مہاجرت نے بتایا ہے کہ مہاجرین اور تارکین وطن اب پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ کشتیوں پر طویل مسافتیں طے کرنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ جنوری سے لے کر اب تک جہاں بحیرہ روم کے مختلف راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران ہلاک یا لاپتہ ہونے والے تارکین وطن کی تعداد سولہ سو کے قریب رہی وہیں صرف وسطی بحیرہ روم کے اس خطرناک راستے میں ڈوب کر ایک ہزار پچانوے مہاجرین ہلاک ہوئے۔
ہلاکتوں میں اس تناسب میں اضافے کے سبب رواں برس کے پہلے سات ماہ میں اٹلی پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں بھی کمی دیکھی گئی اور بالعموم یورپ پہنچنے میں بھی کم ہی مہاجرین کامیاب ہوئے۔
اس کے برعکس یونان اور اسپین پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ص ح / ع ت / نیوز ایجنسی
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔