امریکی وسط مدتی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی ایوان نمائندگان میں اپنی اکثریت کھو بیٹھی ہے۔ تاہم سینیٹ یا ایوان بالا میں ریپبلکن پارٹی کی معمولی سی برتری برقرار ہے۔
اشتہار
وسط مدتی انتخابات کے بعد امریکی کانگریس منقسم دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم اس صورتحال میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے حکومت کرنا آسان نہیں ہو گا۔ مثال کے طور پر ایوان نمائندگان میں اکثریت ہونے کی وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی ٹرمپ سے کئی خفیہ معلومات عام کرنے کا مطالبہ کر سکتی ہے، جس میں ٹیکس تفصیلات بھی شامل ہیں۔
اندازوں کے مطابق ڈیموکریٹس ایوان نمائندگان میں ریپبلکنز سےتقریباً چھبیس نشستیں زیادہ جیت سکتے ہیں۔ پچھلے آٹھ برسوں ميں يہ پہلا موقع ہو گا کہ 435 نشستوں والے ايوان نمائندگان ميں ڈيموکريٹک پارٹی اکثريت میں ہو گی۔ تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کو ابھی تک 218 نشستوں پر کامیابی مل چکی ہے جبکہ ری پبلک پارٹی کے 193 ارکان ہیں۔
اسی طرح ایک سو رکنی سینیٹ کے غیر حتمی نتائج کے مطابق ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کو 51 نشستیں حاصل ہیں۔ انتخابات کے سرکاری نتائج آج بدھ سات نومبر کی شام تک سامنے آ جائیں گے۔ وسط مدتی انتخابات کے ساتھ ساتھ چھتیس ریاستوں کے گورنروں کو بھی منتخب کیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ امریکا کے مغربی حصے میں ووٹنگ ختم ہوتے ہی ٹرمپ نے اپنی پارٹی کی کارکردگی کو سراہا۔ امریکا میں صدارتی انتخابات 2020ء میں منعقد کیے جائیں گے تاہم وسط مدتی انتخابات کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے اور اسے حکومتی کارکردگی اور مقبولیت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔
تصویر: Reuters/Prime Minister's Office/A. Scotti
6 تصاویر1 | 6
ماہرین کے مطابق ٹرمپ کو حکومت سازی کے لیے اپنے رویے میں لچک پیدا کرنا ہو گی۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا توبنیادی طور پر ان کے لیے کاروبار حکومت چلانا یا اپنے سیاسی ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا بہت ہی مشکل ہو جائے گا کیونکہ ڈیموکریٹس اب قانون سازی کا راستہ روک سکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ حکومتی سرگرمیوں کے منجمد ہونے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔