وسکونسن اور اریزونا نے بھی بائیڈن کی جیت کی تصدیق کردی
1 دسمبر 2020
امریکی ریاست اریزونا اور وسکونسن نے بھی ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی جیت کی تصدیق کردی ہے۔ ٹرمپ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے رہے ہیں تاہم دونوں ریاستوں کا کہنا ہے کہ انتخابات منصافانہ ہوئے۔
اشتہار
امریکی ریاست اریزونا اور وسکونسن نے پیر 30 نومبر کو ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل کر لیا اور دونوں ہی ریاستوں نے انتخابات میں نو منتخب صدر جو بائیڈن کی کامیابی کی باضابطہ طور پر تصدیق کر دی۔ بائیڈن کو جنوب مغربی ریاست اریزونا میں ٹرمپ کے مقابلے صرف 10 ہزار ووٹ زیادہ ملے اور بہت معمولی فرق سے کامیابی حاصل کی۔
ریاست اریزونا میں ریپبلکن کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے جہاں سن 1992 میں ڈیموکریٹک امیدار بل کلنٹن کامیاب ہوئے تھے اور اس کے بعد دوسری مرتبہ اب جو بائیڈن کو کامیابی ملی ہے۔ ریاست وسکونسن میں انتخابی حکام نے دو کاؤنٹیز میں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کرنے کے بعد جو بائیڈن کی جیت کی تصدیق کر دی ہے۔ اس ریاست میں بائیڈن کو ٹرمپ کے مقابلے میں 20 ہزار 600 ووٹ زیادہ ملے۔
موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کے الزام عائد کرتے ہوئے اب تک اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس ضمن میں ابھی تک انہیں کسی ریاستی اور وفاقی عدالت میں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔
دوبارہ گنتی سے بھی ٹرمپ کی شکست
ریاست وسکونسن میں ٹرمپ کی ٹیم نے تقریباً دو لاکھ 38 ہزار بیلٹ کو نااہل قرار دیکر نتائج کو بدلنے کا جو دعوی پیش کیا تھا اس پر ریاست کے انتخابی کمیشن نے ان کی ٹیم کو پانچ روز کے اندر مقدمہ درج کرنے کی اجازت دی تھی۔ ٹرمپ کی ٹیم نے بغیر کسی ثبوت کے یہ دعوی کیا تھا کہ مذکورہ بیلٹ جعلی ہیں۔
امریکی الیکشن، صورتحال کیا رنگ اختیار کرے گی؟
05:03
وسکونسن کی ڈین اور میلوکی کاؤنٹی میں بیلٹ کی دوبارہ گنتی کے لیے ٹرمپ کو 30 لاکھ ڈالر کی رقم بھی ادا کرنی پڑی لیکن دوبارہ گنتی سے بھی نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ریاست کے اٹارنی جنرل جوش کاؤل نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں کہا، ''اس دعوے کی قطعی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے نتائج متاثر ہو سکتے۔''
اس کے بعد وسکونسن کے ڈیموکریٹ گورنر ٹونی ایورز نے جو بائیڈن کی جیت کی تصدیق کرتے ہوئے سرٹیفیکیٹ پر دستحظ کر دیے۔ وسکونسن سے بائیڈن کو 10 الیکٹورل ووٹ ملے۔ اس موقع پر گورنر نے اپنے بیان میں انتخابی حکام کے منصفانہ انتخابات کرانے پر شکریہ اداکرتے ہوئے کہا، ''آج میں نے تین نومبر کو ہونے والے انتخابات کی تصدیق کرنے کے اپنے فرض کو پورا کر دیا۔''
اشتہار
اریزونا میں شفاف اور منصفانہ ووٹ
ٹرمپ نے اریزونا میں انتخابی حکام پر کرپشن میں ملوث ہونے اور دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا۔ ان کے وکلاء نے بھی بغیر ثبوت کے انتخابات میں دھاندلی کے دعووں پر بات چیت کے لیے ریاستی قانون سازوں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں، تاہم یہاں بھی انہیں شکست ہوئی۔
اریزونا کی سکریٹری برائے خارجہ کیٹی ہوبس نے بائیڈن کی فتح کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ متعدد بے بنیاد دعوں اور الزامات کے بر عکس انتخابات، ''شفافیت، درستگی اور انصاف کے ساتھ ہوئے۔''
امریکی صدارتی انتخابات میں کئی بار ریاستیں ووٹنگ کے دن کے بعد باضابطہ طور پر ووٹوں کی گنتی کی تصدیق کے لیے طویل وقت لگاتی ہیں۔ اس بار کے انتخابات میں ٹرمپ کی ٹیم نے چونکہ دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں اس لیے یہ انتخابات کافی دنوں سے سرخیوں میں ہیں۔
اس دوران ٹرمپ نے گر چہ ابھی تک اپنی شکست تسلیم نہیں کی ہے تاہم جو بائیڈن کی ٹیم نے اقتدار کی منتقلی کا عمل شروع کر دیا ہے اور ان کی ٹیم کی تشکیل کا عمل بھی جاری ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔