وطن میں زندگی امریکا میں زندگی سے آسان ہے، پاکستانی ہم جنس پرست کا موقف
8 مئی 2013پاکستان میں وہ جتنی بھی شادیوں میں شرکت کرتے ہیں، وہ ان کے ہم جنس پرست دوستوں کی ایسی خواتین سے شادیاں ہوتی ہیں، جنہیں یہ شبہ تک نہیں ہوتا کہ ان کے شوہر ہم جنس پرست ہیں۔ ایک کافی شاپ پر سگریٹ پیتے ہوئے 41 سالہ قاسم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک ہم جنس پرست کے طور پر پاکستان میں رہنا دراصل امریکا میں ایک ہم جنس پرست مرد کے طور پر زندگی گزارنے سے کافی بہتر ہے۔
پاکستان دنیا کے قدامت پسند ملکوں میں سے ایک ہے۔ لیکن قاسم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس کے لیے علی کے ساتھ ایک ہی رہائش گاہ میں رہنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ قاسم نے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک مہنگے کیفے میں اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے علی کا ہاتھ پکڑ کر کہا، ’ہم یہاں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ سکتے ہیں‘۔ قاسم کے بقول پاکستان میں آپ کسی بھی جگہ ہوں، کوئی شخص آپ کو دیکھ کر یہ تاثر نہیں دیتا کہ آپ دوسروں سے مختلف ہیں۔
اس 41 سالہ پاکستانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک ہم جنس پرست کے طور پر اسے کسی نے کبھی کوئی گالی نہیں دی اور نہ ہی سر راہ اس کی کبھی کوئی تذلیل کی گئی ہے۔ لیکن امریکا میں رہتے ہوئے اسے اس قسم کے تجربات ہوئے تھے۔
قاسم کے مطابق پاکستان کے شمال مغرب میں افغان سرحد کے قریب قبائلی علاقوں میں اور ایران کے ساتھ سرحد کے قریب جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں تو یہ ایک قدیم روایت ہے کہ مردوں اور نوجوان لڑکوں کے درمیان درپردہ جنسی رابطے ہوتے ہیں۔ قاسم کا کہنا ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین معاشرتی زندگی کے مرکزی دھارے سے دور رکھی جاتی ہیں اور شادی سے پہلے جنسی تعلقات کو بہت برا سمجھا جاتا ہے، اس بارے میں کسی کو تشویش نہیں ہوتی کہ دو مردوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ہوں یا وہ سڑک کنارے ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہوں۔
قاسم پیدا تو پاکستان میں ہوا تھا مگر وہ اپنے والدین کے ساتھ اس وقت نقل مکانی کر کے امریکا چلا گیا تھا جب اس کی عمر صرف تین سال تھی۔ قاسم کے خاندان کی ملبوسات کی فیکٹریاں تھیں اور اس نے فیشن اور کمپیوٹنگ کے علاوہ ایم بی اے کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔ اپنی عمر کی تیسری دہائی میں جب وہ مائیکروسافٹ کمپنی کے لیے کام کر رہا تھا تو ایک میڈیکل ٹیسٹ کے دوران تصدیق ہو گئی کہ وہ ایڈز کی بیماری کا باعث بننے والے ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہو چکا تھا۔
تب امریکا میں یہ قانون تھا کہ اگر کسی غیر ملکی نے امریکی شہریت اختیار کی ہو اور وہ HIV وائرس کا شکار ہو جائے تو اسے اپنی امریکی شہریت واپس کرنا پڑتی تھی۔ قاسم کو امریکا میں اپنے شہری حقوق سے متعلق طویل عدالتی جنگ بھی لڑنا پڑی لیکن وہ ناکام رہا۔ آخر کار اسے اپنی امریکی شہریت چھوڑ کر واپس پاکستان آنا پڑا۔ ایک ایسے ملک میں جسے وہ بمشکل جانتا تھا اور جہاں ہم جنس پرستی قانونی طور پر جرم ہے۔
قاسم کا کہنا ہے کہ پاکستان لوٹنے کے بعد اسے ایک شدید ثقافتی دھچکا لگا تھا۔ پھر وہ چند ماہ کے لیے دبئی چلا گیا۔ وہاں بھی کوئی ملازمت نہ ملی تو وہ آسٹریلیا چلا گیا لیکن وہاں بھی وہ چھ ماہ تک بے روزگار رہا۔ اب وہ پاکستان میں رہتا ہے اور خوش ہے۔ اب قاسم پاکستان میں ہم جنس پرستوں اور اپنی جنس تبدیل کرا لینے والے افراد کے لیے ایک امدادی تنظیم بھی قائم کر چکا ہے۔ اس تنظیم کی عوامی سطح پر کوئی تشہیر نہیں کی جاتی لیکن اسے حکومتی تعاون حاصل ہے۔ قاسم کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کے لیے کام کرتے ہوئے اسے عزت محسوس ہوتی ہے، لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے، ’میں اس لیے مطمئن ہوں کہ میں شاید اس کام میں لوگوں کی مدد کر رہا ہوں کہ ان کی زندگی بہتر ہو سکے‘۔
قاسم کے بوائے فرینڈ علی کی عمر 26 برس ہے اور وہ دونوں لاہور کے ایک خوشحال علاقے میں ایک فلیٹ میں رہتے ہیں۔ ان کے گھر میں ایک مالی اور دو گھریلو ملازم بھی کام کرتے ہیں۔ دونوں ملازم ہیجڑے ہیں۔ قاسم کا کہنا ہے کہ اس کے ہمسایوں کو یہ علم نہیں ہے کہ وہ اور علی ہم جنس پرست ہیں۔ ’’ہم بس اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔‘‘
قاسم کے پارٹنر علی کا کہنا ہے کہ اس کے لیے کسی کے ساتھ مل کر ایک ہم جنس پرست جوڑے کے طور پر زندگی گزارنا بالکل معمول کی بات ہے۔ علی کے مطابق، ’قاسم کو ملنے سے پہلے میں بہت اداس رہتا تھا۔ اب میں خوش ہوں اور اپنی خوشی کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا‘۔
قاسم نے اپنے گھر والوں کو اپنے لڑکپن میں ہی بتا دیا تھا کہ وہ ہم جنس پرست ہے اور ہم جنس پرستی پسند کرتا ہے۔ لیکن علی کے گھر والوں کو اس کی جنسی ترجیحات کا علم نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ علی اپنے دوست کے ساتھ مل کر ایک ہم جنس پرست جوڑے کی زندگی گزار رہا ہے۔
ij / ia (Reuters)