جرمن حکومت نے عراق سے اپنی فوج کے جزوی انخلا کا فیصلہ کیا ہے۔ جرمن فوجیوں کی تعداد میں یہ کمی علاقائی سلامتی کے خدشات کے تناظر میں لائی جا رہی ہے۔
اشتہار
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس اور وزیر دفاع آنےگریٹ کارین باؤر نے اپنی اپنی وزارتوں کو مطلع کر دیا ہے کہ عراق متعینہ ایک سو تیس فوجیوں میں سے تیس کو عراق کے ہمسایہ ممالک میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ عراقی شہروں بغداد اور تاجی میں موجود جرمن فوجیوں کو امکاناً کویت اور اردن منتقل کیا جا سکتا ہے۔
وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے وفاقی جرمن فوجیوں کی تعداد میں کمی کے حوالے سے کہا کہ برلن حکومت بااختیار عراقی حکومت کے فیصلوں کا احترام کرتی ہے۔ انہوں نے بغداد حکومت کو متنبہ بھی کیا کہ غیر ملکی افواج کے نکلنے سے اس بات کا بھی غالب امکان ہے کہ دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ دوبارہ منظم اور مضبوط ہو سکتی ہے۔ ہائیکو ماس کے مطابق اگر ایسا ہوا تو یہ صورت حال خطے کے علاوہ کم از کم عراق میں عدم استحکام میں تو لازمی طور پر مزید اضافے کا باعث بنے گی۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد عراقی پارلیمنٹ میں داعش کے انسداد کے لیے غیر ملکی افواج کے اتحاد کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔ اس قرارداد میں عراقی سرزمین پر موجود تمام غیرملکی افواج کے وہاں سے نکل جانے کا ذکر کیا گیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ اس قرارداد پر عراقی حکومت کے لیے عمل کرنا لازم نہیں ہے۔ امریکا نے عراق سے اپنی فوج کے انخلا کے امکان کو رد کر دیا ہے۔
عراق میں متعین جرمن فوج کی ذمہ داریوں میں ملٹری ٹریننگ، فضا سے فضا میں جنگی طیاروں کو ایندھن کی فراہمی اور جاسوس طیاروں کی سرگرمیوں کی نگرانی شامل ہے۔ زیادہ تر جرمن فوجی شمالی عراق کے نیم خود مختار کرد علاقے میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
جرمن وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے خطوط میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ان فوجیوں کا جزوی انخلا حتمی نہیں ہے اور اس میں مستقبل کی ضروریات کے مطابق تبدیلی ممکن ہے۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ وفاقی جرمن حکومت منظم بین الاقوامی ڈھانچے کا حصہ رہتے ہوئے اپنی فوجی حمایت کا سلسلہ اُس وقت تک جاری رکھے گی جب تک عراقی حکومت ایسا چاہے گی اور زمینی حالات کے مطابق اس کی ضرورت ہو گی۔
ع ح ⁄ م م (ڈی پی اے، روئٹرز)
وفاقی جرمن فوج، زلفوں کی لمبائی کا جھگڑا عدالت میں
وفاقی جرمن فوج کا ایک اہلکار شانوں تک لمبے بال رکھنا چاہتا ہے۔ عدالت نے فوجی کی اپیل مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی وفاقی جرمن فوج کو زلفوں سے متعلق قوانین میں تبدیلی لانے کا حکم بھی دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Brandt
فوجی لیکن گوتھ کلچر کا حصہ
مدعی گوتھ کلچر کو پسند کرتا ہے۔ وہ فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ تصویر میں نظر آنے والے اس شخص کی طرح گوتھ اسٹائل کا دلدادہ ہے۔ نجی زندگی کے دوران تو لمبے بال مسئلہ نہیں ہیں لیکن دوران ڈیوٹی فوجی ضوابط کے تحت لمبے بال رکھنے کی ممانعت ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Prosch
سخت رویہ، نازک جلد
جرمن فوج کے قوانین کے مطابق سروس کے دوران ایک فوجی کے بال اس طرح ہونے چاہئیں کہ سیدھا کھڑا ہونے کی صورت میں بال نہ تو یونیفارم اور نہ ہی شرٹ کے کالر کو چھوئیں۔ یہ قانون صرف مرد فوجیوں کے لیے ہے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
خواتین کی چُٹیا
بنیادی تربیت سے پہلے مردوں کے برعکس خواتین فوجیوں کے بال نہیں کاٹے جاتے۔ اگر خواتین کے بال کندھوں سے بھی طویل ہیں تو انہیں چٹیا بنانی ہوتی ہے۔ عدالت کے مطابق یہ مردوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Reinhardt
خواتین فوجیوں کی تلاش
عدالت نے وزارت دفاع کے موقف کی تائید کی ہے۔ وزارت دفاع کے مطابق خواتین لمبے بالوں کو حساس نسائیت کی وجہ سے پسند کرتی ہیں۔ جرمن فوج کو خواتین کے لیے پرکشش بنانے کی وجہ سے یہ اجازت دی گئی ہے۔
تصویر: Bundeswehr / Jonas Weber
لمبی داڑھی اور لمبی زلفوں کی اجازت؟
وفاقی انتظامی عدالت نے فوجی اہلکار کی اپیل تو مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا ہے کہ فوج اپنے ملازمین کی نجی زندگی میں بہت زیادہ دخل اندازی کر رہی ہے، لہذا اسے اپنے قوانین میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ہو سکتا ہے جلد ہی جرمن فوجیوں کو لمبے بال اور لمبی داڑھی رکھنے کی اجازت مل جائے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
لڑائی سے پہلے بال تراشیں
تقریبا پچاس برس قبل وفاقی جرمن فوج کے اہلکاروں کو گردن کے پیچھے فیشن ایبل بال رکھنے کی اجازت تھی۔ سن 1971 میں ماتھے پر بھی لمبے بال رکھے جا سکتے تھے لیکن اس کے ایک برس بعد ہی یہ اجازت ختم کر دی گئی تھی۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
بیوروکریسی کے پھندے میں
ستر کی دہائی کے آغاز میں جرمن فوجیوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت تھی اور اسی وجہ سے بیرون ملک جرمن فوج کو ’جرمن ہیئر فورس‘ کہا جانے لگا تھا۔ لمبے بالوں کی وجہ سے جو صحیح طریقے سے ڈیوٹی سرانجام نہیں دے پاتا تھا، اسے بالوں کو قابو میں رکھنے والی ایک ٹوپی دی جاتی تھی۔ وفاقی جرمن فوج نے سات لاکھ چالیس ہزار جالی والی ٹوپیاں منگوائی تھیں۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
اپنے وطن کے لیے
اس فوجی کو خصوصی اجازت فراہم کی گئی تھی۔ سارجنٹ ہنس پیٹر کی یہ تصویر سن 2005 میں لی گئی تھی۔ جرمن فوج کا یہ اہلکار کلاسیک مونچھوں کے مقابلے میں پہلی پوزیشن بھی جیت چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Weihs
چہرہ چھپائیے
جب خود کو دشمن کی نگاہوں سے چھپانے کی بات کی جائے تو پھر سب کچھ جائز ہے۔ یہ دونوں فوجی نشانچی ہیں اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالے ہوئے ہیں۔