1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وفاقی حکومت کی صوبے بلوچستان میں بغاوت کے خاتمے کی کوششیں

Kishwar Mustafa12 جون 2013

پاکستانی حکام نے قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر قابو پانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

تصویر: DW

اسلام آباد حکومت کا یہ فیصلہ بلوچستان میں ایک عرصے سے جاری ایک علیحدگی پسندی کی تحریک اور بغاوت کو روکنے کے ضمن میں اولین قدم ہوگا۔ پاکستان کے لیے اس صوبے کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ بلوچستان جغرافیائی اعتبار سے علاقائی اور بین الاقوامی سیاست میں بھی منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ پاکستان، جنوب مشرقی ایران اور جنوب مغربی افغانستان، تینوں علاقوں کے سنگم پر واقعے اس پاکستانی صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ نے سکیورٹی فورسز پر زور دیا ہے کہ وہ بلوچستان کے باغیوں کے ساتھ مکالمت کی راہ ہموار کرتے ہوئے وہاں جبری طور پر لوگوں کو غائب کر دینے جیسی کارروائیوں سے اجتناب کرے۔

گزشتہ اتوار کو، جس روز ڈاکٹرعبدالمالک نے بطور وزیر اعلیٰ بلوچستان حلف اٹھایا تھا، اسی روز صوبے میں گولیوں سے چھلنی پانچ لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ مبصرین کے مطابق اس واقعے سے یہ ثابت ہو گیا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم گروپوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز پر کی جانے والی تنقید حق بجانب ہے۔ ان گروپوں نے سکیورٹی فورسز پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’Kill and dump ‘ کے تصور کے تحت ایک منظم مہم چلا رکھی ہے۔ گولی سے چھلنی لاشیں برآمد ہونے کے حالیہ واقعے کے بعد بہت سے افراد اسے ایک سگنل یا علامت سمجھ رہے ہیں کہ سکیورٹی فورسز اپنی ان کارروائیوں کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دوسری جانب سکیورٹی فورسز ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں عوام اب بھی پسماندگی اور غربت کا شکارتصویر: Abdul Ghani Kakar

وزیر اعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک نے اسلام آباد میں خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،’ ہمیں ایک ایسا ماحول بنانا ہے جس میں ہم باغیوں کو مکالمت کے لیےمدعو کر سکیں۔ اس سے قبل کے میں باغیوں کے پاس جاؤں، ہمیں ایسے مخصوص اقدامات کرنا ہوں گے جس سے ہم یہ ثابت کرسکیں کہ ہم تبدیلی چاہتے ہیں‘۔ دریں اثناء بہت سے بلوچوں کی طرف سے اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آیا نئے وزیر اعلیٰ اپنے ان عزائم میں کامیاب ہوں پائیں گے۔

گیارہ مئی کے عام انتخابات میں بلوچستان کے متعدد علاقوں میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بہت کمر دیکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر ہونے والی بے ضابطگیوں کے الزامات نے بلوچ عوام کی ملک کے ساتھ احساس بیزاری کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔

علیحدگی پسند جنگجوؤں اور سکیورٹی فورسز کے مابین تنازعات کے گہرے اثرات اندرون پاکستان بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ تانبے اور سونے کے ذخائر سے مالامال ہونے کے علاوہ بلوچستان سے نکلنے والی قدرتی گیس پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کی حیثیت رکھنے والی ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے غیر معمولی اہم علاقہ ہے۔ یہاں سے گیس کی سپلائی مشرقی صوبے پنجاب کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔ مزید برآں بلوچستان ہی میں گہرے پانی کی بندر گاہ گوادر واقع ہے۔

بلوچستان دیگر صوبوں کے مقابلے میں اقتصادی طور پر ہنوز بہت پیچھے ہےتصویر: Abdul Ghani Kakar

قیام پاکستان کے اگلے سال ہی بلوچستان سے بغاوت کی لہریں اٹھنا شروع ہو گئی تھیں جو اب تک جاری ہیں اوراس جنوبی ایشیائی ریاست کی جغرافیائی اور سیاسی صورتحال کی حساسیت کا پتہ دیتی ہیں۔

40 سالہ ڈاکٹرعبدالمالک سابق سینیٹر اور ایک آزمودہ کار سیاسی لیڈر ہیں۔ یہ بلوچستان کی تاریخ کے پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جن کا تعلق تعیلم یافتہ متوسط طبقے سے ہے۔ ان سے پہلے اس عہدے پر ہمیشہ قبائلی لارڈز ہی فائز رہے ہیں جنہیں روایتی طور پر پاکستانی فوج کی پشت پناہی حاصل رہی، کیونکہ فوج ان ہی کے ذریعے بلوچستان کو کنٹرول میں رکھنا چاہتی تھی۔ ملک نے اپنی حکومت کے پہلے 100 دنوں کے اندر صوبے میں اعتماد سازی کے اقدامات متعارف کرانے کا عزم کیا ہے۔ ان کی ترجیحات میں فوج سے یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ وہ گمشدہ افراد کو بازیاب کرے، ان افراد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں فوج نے پکڑ رکھا ہے۔

km/ah(Reuters)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں