جرمنی اور کئی دیگر یورپی ملکوں میں گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی گئی ہیں۔ یوں موسم سرما کے معیاری وقت کا آغاز ہو گیا ہے۔ تاہم یورپی یونین تبدیلی وقت کا یہ نظام ختم کرتے ہوئے ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتی ہے۔
وسطی یورپ کے متعدد ممالک میں گھڑیوں کو آگے پیچھے کرنے کے نظام پر تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم اب مارچ 2019ء کے بعد سے معیاری وقت میں تبدیلی کا یہ سلسلہ بند کر دیا جائے گا۔
اس سال فروری میں یورپی پارلیمان نے یورپی کمیشن سے کہا تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ اس نظام پر عمل درآمد جاری رکھنے کے فوائد کیا ہیں اور اس میں ممکنہ تبدیلی کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔
اس کے بعد یورپی سطح پر مکمل کیے گئے ایک آن لائن جائزے میں 4.6 ملین یورپی شہریوں نے حصہ لیا۔ ان میں سے تقریباً 84 فیصد سے زائد نے کہا کہ گرمیوں اور سردیوں میں یورپ کے مختلف معیاری اوقات کا نظام ختم کر دینا چاہیے۔ اس سروے میں حصہ لینے والے جرمن شہریوں کی تعداد تین ملین کے قریب تھی۔
شہری جو چاہتے ہیں، ہم بھی وہی کریں گے، ینکرتصویر: picture-alliance/dpa/V. Mayo
یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود ینکر چاہتے ہیں کہ اگلے برس ہونے والے یورپی یونین کے انتخابات تک اس بارے میں مزید تفصیلات اکٹھی کی جائیں، ’’شہری جو چاہتے ہیں، ہم بھی وہی کریں گے۔‘‘
اس تجویز کے مطابق یورپی یونین کے رکن تمام ممالک کے پاس اپریل 2019ء تک کا وقت ہے، یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ وہ موسم سرما یا گرما میں سے کون سے معیاری وقت کا اپنے لیے مستقل انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔ معیاری وقت میں تبدیلی کے نظام کا مقصد گرمیوں میں توانائی کے ذرائع کو بہتر طور پر استعمال کرنا اور سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے۔
موجودہ ’ٹائم سسٹم‘ کے مطابق مغربی یورپ میں ہر سال معیاری وقت دو بار تبدیل ہوتا ہے۔ ایک بار مارچ کے اواخر میں جب موسم گرما کا معیاری وقت شروع ہوتا ہے اور تمام گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی جاتی ہیں اور دوسری بار اکتوبر کے اواخر میں جب موسم سرما کے معیاری وقت کا آغاز ہوتا ہے۔
وسطی یورپ کے متعدد ممالک میں گھڑیوں کو آگے پیچھے کرنے کے نظام پر تحفظات بھی پائے جاتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata
یورپی یونین میں آج کل تین ’ٹائم زون‘ ہیں۔ جرمنی اور مزید سولہ یورپی ممالک کا وقت یکساں ہے۔ بلغاریہ، ایسٹونیا، فن لینڈ، یونان اور قبرص سمیت آٹھ ممالک مغربی یورپ سے ایک گھنٹہ آگے ہیں جبکہ آئرلینڈ، پرتگال اور برطانیہ ایک گھنٹہ پیچھے ہیں۔
تاہم اب کئی ممالک چاہتے ہیں کہ موسم سرما میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے نہ کی جائیں۔ سال بھر موسم گرما کے معیاری وقت کی حمایت کرنے والے ممالک میں بَینے لُکس ریاستیں (بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ)، آسٹریا اور جرمنی شامل ہیں جبکہ سلوواکیہ موسم سرما کا وقت اور پرتگال وقت کی تبدیلی کے موجودہ نظام پر عمل پیرا رہنا چاہتا ہے۔
اگر یہ تمام ممالک اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی وقت کے نظام پر عمل کرتے رہے، تو یورپی کمیشن کا یورپی سطح پر معیاری وقت میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا اور اگلے سال سے مختلف ممالک کی گھڑیوں میں وقت بھی مختلف ہی ہو گا۔
انتہائی دلکش یورپی گھڑیال
کلائی کی گھڑیوں اور اسمارٹ فون کے دور میں عوامی مقامات پر نصب گھڑیالوں کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ یورپ میں کئی مقامات پر نصب بڑے گھڑیال اتار لیے گئے ہیں لیکن کئی گھڑیال اب بھی اپنی دلکشی کے ساتھ قائم و دائم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
لندن کا بگ بین
لندن کا بِگ بین یورپ کا انتہائی مشہور گھڑیال تصور کیا جاتا ہے۔ یہ جس مینار پر نصب ہے، اُس کا اصل نام ایلزبتھ ٹاور ہے لیکن اِس کی شہرت بگ بین ٹاور کے نام ہی سے ہے۔ اس کو لندن کی آواز یا ’وائس آف لندن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ فی الحال مرمت کی وجہ سے بگ بین خاموش ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PA Wire/V. Jones
برلن کا ورلڈ ٹائم کلاک
جرمن دارالحکومت برلن کے الیگزانڈر پلاٹز پر نصب یہ گھڑیال انتہائی منفرد ہے۔ اس کو سن 1969 میں سابقہ مشرقی جرمنی کے صنعتی ڈیزائنر ایرش ژون نے ڈیزائن کیا تھا۔ ابتدا سے ہی یہ سیاحوں اور عام لوگوں کی ملاقات کا ایک مشہور مقام ہے۔ اس کے بلند مقام پر نظام شمسی اور نچلے حصے میں سلنڈروں کے ذریعے زمین کا نظام الاوقات دکھایا گیا ہے۔
یہ قدرے کم شہرت کا حامل گھڑیال ضرور ہے لیکن اپنی ساخت میں انتہائی دلچسپ ہے۔ یہ برلن کے یورپ سینٹر میں نصب ہے۔ تیرہ میٹر بلند یہ کرونو میٹر تقریباﹰ تین منزلوں کے مساوی ہے۔ اس کے شیشے کے بڑے بڑے پیمانوں میں سبز سیال مادہ گھنٹوں اور چھوٹے پیمانوں کا پانی منٹ کے لیے مختص ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibner-Pressefoto
پراگ کے ٹاؤن ہال کا گھڑیال
چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ کے ٹاؤن ہال پر نصب سن 1410 میں تعمیر ہونے والا فلکیاتی گھڑیال گاتھک طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔ یہ دنیا بھر میں اپنی انفرادیت کی وجہ سے ایک مثال ہے۔ روایت ہے کہ اُس وقت کے حاکم نے اس گھڑیال کی تکمیل پر اِس کے بنانے والے کی آنکھیں نکال دی تھیں تا کہ وہ کوئی دوسرا ایسا گھڑیال نہ بنا سکے۔ یہ تزیئن نو کے عمل سے گزر رہا ہے اور اکتوبر سن 2018 میں یہ عمل مکمل ہو جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/chromorange/Bilderbox
زُائیٹلوگے گھڑیال، بیرن
گھڑی سازی کے دیس سوئٹزرلینڈ کے موجودہ دارالحکومت اور خوبصورت شہر بیرن میں سن 1530 میں زائیٹلوگے گھڑیال کی تعمیر مکمل کی گئی تھی۔ سیاح ہر گھنٹے پر گھڑیال کے ہندسوں کی جگہ بنی اشکال کا تماشہ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/A. Filippov
اسٹراس برگ کا فلکیاتی گھڑیال
اسٹراس برگ کے کیتیھڈرل کے اندر نصب یہ گھڑیال سوئس گھڑی سازوں کی محنتِ شاقہ کا عکاس ہے۔ اس گھڑیال میں ہندسوں کی شکل میں انسانی زندگی کے ادوار کو دکھایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH/G. Lenz
دنیا کا سب سے بڑا ’کُکو گھڑیال‘
جنوبی جرمنی میں واقع مشہور بلیک فارسٹ کے شہر ٹرائی بیرگ میں یہ گھڑیال قریبی جنگلات کا نشان خیال کیا جاتا ہے۔ اس کو دنیا کا سب سے بڑا ’کُکُو کلاک‘ قرار دیا گیا ہے اس گھڑیال کا وزن چھ ٹن ہے۔ ہر گھنٹے اور نصف گھنٹے پر لکڑی کا بنا ہوا ساڑھے چار میٹر کی جسامت کا کُکُو گھڑیال کی کھڑی سے نمودار ہو کر وقت کا اعلان کرتا ہے۔
تصویر: Stadtverwaltung Triberg
میونخ کا گھڑیال
یہ گھڑیال جرمن شہر میونخ کے سٹی ہال کی عمارت کے باہر نصب ہے۔ یہ گھڑیال جدید دور کی توانائی سولر انرجی سے چلتا ہے اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth
ویانا کا ’اینکر کلاک‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا اینکر گھڑیال بہت مشہور ہے۔ یہ اینکر ہوف بلڈنگ اور ہوہے مارکٹ کے حصوں کو جوڑنے والے پل پر نصب ہے۔ اس کے ڈیزائنر فرانز ماٹش تھے۔ اس گھڑیال کے ہر گھنٹے پر مشہور شخصیات کے مجسمے نمودار ہوتے ہیں۔
آسٹریا کے شہر گراتز کی ایک وجہٴ شہرت یہ کلاک ٹاور بھی ہے۔ یہ گھڑیال شلوس برگ میں نصب ہے اور دور سے دکھائی دیتا ہے۔ ابتداء میں اس میں صرف ایک سوئی نصب کی گئی تھی اور منٹ کی سوئی بعد میں لگائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Votava
وینس کا فلکیاتی گھڑیال
اٹلی کے شہر وینس میں سینٹ مارکس اسکوائر میں یہ گھڑیال نصب ہے جو صرف وقت ہی نہیں دکھاتا بلکہ علم البروج کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سورج اور چاند کی سمتوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سن 1998 تک اس گھڑیال کا نگران اپنے خاندان کے ہمراہ اس ٹاور کے اندر ہی رہتا تھا۔ سن 2006 سے اس کی نگرانی ڈیجیٹل کر دی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Engelhardt
بُلوآ کا ’جادو گھر‘
فرانسیسی شہر بلوآ کا یہ گھڑیال حقیقی معنوں میں گھڑیال نہیں ہے۔ اس کئی ڈریگنز کے سروں سے وقت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ ہر نصف گھنٹے پر یہ ڈریگنز اپنے اپنے ہندسوں کے مقام سے باہر نکل کر خوفناک حرکات کا مظہر ہوتے ہیں۔ یہ کلاک بلوآ میں واقع جادو کے عجائب گھر کے ماتھے پر نصب ہے۔ جدید دور کے مشہور جادو گر رابرٹ ہودن اسی شہر میں پیدا ہوئے تھے۔