اخلاقی قدروں کا مفہوم، معنی اور عمل وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ھے اور اس کے ساتھ ہی معاشرے کا ذہن بھی نئی شکل اختیار کر لیتا ھے۔ یہ خیال کیا جاتا ھے کہ کسی بھی معاشرے کے استحکام کے لیے اخلاقی قدروں کا ہونا ضروری ھے۔ لیکن عملی طور پر معاشرے کے افراد اپنے ذاتی مفادات اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اخلاقیات کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ مثلاً جنگ کی صورت میں دونوں فریقین دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ حق کی جنگ لڑ رھے ہیں۔ کبھی کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ باطل کی حمایت میں میدانِ جنگ میں آیا ھے۔ لہٰذا حق دونوں جانب ہوتا ھے۔ وہ ایک دوسرے کو باطل ثابت کرتے ہوئے اپنے حق کے لیے جان دے دیتے ہیں۔
اگر اخلاقی قدروں کی تشریح اور تعبیر اِس قدر مختلف ہوتی ھے تو پھر اِس کی بنیاد پر قومیں کیوں اپنی ایمانداری دیانت اور وعدے کی پابندی پر زور دیتی ہیں۔ جب کہ ضرورت کے وقت اِن سے فوراً ہی انحراف کر لیا جاتا ھے۔ اِس کی مِثالیں ہمارے سامنے قوموں کے درمیان معاہدے ہیں۔ جب مُفادات پورے ہو جاتے ہیں۔ تو قومیں اپنے معاہدے کی خلاف ورزی پر شرمندہ نہیں ہوتے ہیں۔ مثلاً جب 1856ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اَودھ پر قبضہ کیا تو واجد علی شاہ پرانے معاہدے دکھاتے رھے جن کی کمپنی نے پرواہ نہیں کی۔
اخلاقی قدروں کو دو نکتہ ہائے نظر سے دیکھا جاتا ھے۔ ایک کو ہم رومانوی، مذہبی اور فلسفیانہ کہتے ہیں۔ دوسرے کو وفاداری اور ضرورت کے تحت نئے معنی دے دیتے ہیں۔ مثلاً قدیم یونان میں سقراط اور افلاطون نے اخلاق کی بنیاد نیکی (Virtue) پر رکھی ھے۔ یعنی اخلاقیات کو ذاتی اغراض اور مفادات کے تحت استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ افلاطون ریپبلک میں فلسفی کو حکمراں بنانا چاہتا ھے۔ فلسفی کے خیالات و افکار عملی دنیا سے دور ہوتے ہیں۔ وہ ضروری سمجھتا ہے کہ معاشرے میں جائیداد کا ادارہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ صاحب جائیداد دوسرے طبقوں سے ممتاز ہوتا ھے۔ تو اس میں رعونت آ جاتی ھے۔ وہ گارڈین آف جمہوریت کے لیے مدت کی کوئی قید نہیں رکھتا ھے۔ عوام کے لیے ان کا وفادار ہونا ضروری ھے۔
ارسطو نے اپنے فلسفے میں کاروباری طبقے کے لیے یہ شرائط رکھیں ہیں کہ وہ منافع نہیں کمائیں گے۔ سودی کاروبار نہیں کریں گے۔ کاروبار میں خیانت کر کے سرمایہ اکھٹا نہیں کریں گے۔ اس کی یہ شرائط نیکی کے تصور پر بنیاد رکھتی تھی۔
بارہویں صدی میں مشہور عیسائی راہنما Thomas Aquinas (d.1274) نے اخلاقی قدروں کی تشریح فلسفے کی بجائے مذہب کی بنیاد پر کی۔ لہٰذا بائبل کی تعلیمات کے مطابق سود لینا، تجارتی اشیاء کو منافع پر فروخت کرنا، قحط، خشک سالی اور مہنگائی کی صورت میں لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا اور کاروبار میں منافع کے لیے بے ایمانی کرنا مذہبی لحاظ سے یہ سب گناہ ھے۔
یونانی فلسفی اور عیسائی مذہبی راہنما اگرچہ اخلاقیات کی تشریح اپنے نقطۂ نظر سے کرتے رھے۔ مگر عملی طور پر معاشرے میں ذاتی مفادات کی وجہ سے ان کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔
اخلاقی قدروں کے بارے میں بنیادی تبدیلی نشاۃ ثانیہ کے دور میں آئی۔ خاص طور سے میکیاولی کی کتاب ''دی پرنس‘‘ نے ایک دوسرا ہی نقطۂ نظر دیا۔ اس نے فلسفے اور مذہب کی تشریحات کو بدل ڈالا اور عملی طور پر لوگ اخلاقی قدروں کا جو استعمال کرتے تھے اس کو کھل کر بیان کیا۔ اولین طور پر اس نے سیاست کو اخلاقی قدروں سے نکالا۔ اس کے نزدیک سیاست میں کوئی رحم اور معافی نہیں ہوتی ھے۔ اس سلسلے میں وہ رومی سلطنت کا مداح تھا کہ رومیوں نے ایک بڑی سلطنت بنائی اور ہر علاقے کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ لیکن جہاں نظم و ضبط کی ضرورت رہی وہاں انہوں نے سختی اور ظلم سے کام لیا۔ اس کے نزدیک عوام میں ڈر اور خوف پیدا کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہی وہ ذریعہ ہے، جو لوگوں کو وفادار رکھتا ھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس پر بھی زور دیتا ھے کہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ اس کے نزدیک عام لوگ امن پسند ہوتے ہیں۔ عوام کو مطمئن رکھنے کے لیے معاشرے میں قانون کی پابندی اور جرائم کی روک تھام ہونا چاہیے۔ لہٰذا میکیاولی اخلاقیات کو نہ تو مذہبی طور پر اہمیت دیتا ھے اور نہ فلسفے کی روح سے لیکن کامیابی کے لیے وہ ہر طریقہ کار کو ضروری سمجھتا ہے۔ یعنی حکمراں کو ہر ممکن طریقے سے ملک کا دفاع کرنا چاہیے اور عام لوگوں کو مطمئن رکھنا چاہیے۔
اسی ضمن میں Thomas Hobbes (d.1679) نے The Leviathan کے نام سے کتاب لکھی۔ اس کتاب میں اس نے انسانی سوسائٹی کے دو پہلو بتائے ہیں۔ یعنی ایک وہ دور جب انسان نیچر کا حصہ تھا۔ اس کی زندگی موت کے خوف میں گزرتی تھی، جس کو وہ وحشی اور کم مدتی زندگی کا زمانہ کہتا ھے۔ اس کا دوسرا دور وہ ہے کہ جب انسان نے ارتقائی طور پر تہذیب و تمدن کو پیدا کیا اور خاص طور سے ریاست کے ادارے کی بنیاد ڈالی۔ ریاست کے ادارے میں سربراہ ہوتا ھے۔ قانون اور انتظامیہ ہوتی ھے۔ یہ ادارے لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس لیے اگر ریاست اپنی طاقت کے استعمال کے لیے استبدادی حربے استعمال کرے تو انہیں برداشت کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ لوگوں کی زندگی کی ضمانت ہوتے ہیں اور معاشرے میں امن کو برقرار رکھتے ہیں۔
اس تناظر میں جب ہم بدلتی ہوئی اخلاقی قدروں کو دیکھتے ہیں۔ تو اس کی بھی وضاحت ہوتی ھے کہ ان کے بدلنے یا نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے کے رویے بدل جاتے ہیں۔ خاندان کی ساخت میں تبدیلی آتی ھے۔ معاشرے کے طبقات میں امتیاز پیدا ہوتا ھے۔ اس کے ساتھ ہی بدلنے والی زبان میں بھی نئی اصطلاحات آتیں ہیں اور روزمرہ کی زندگی میں عادات بدلتی رہتی ہیں۔ دوستی اور دشمنی کے معنی بدل جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ قوم کے اندرونی حالات اور بیرونی رِشتوں میں نئے رویے جنم لیتے ہیں۔
ایک فرد کی زندگی کو عام طور پر اخلاقی قدروں کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن بعض معاشرے ایسی شکل بھی اختیار کر لیتے ہیں، جہاں دولت مند اور سرمایہ دار افراد کو اعلیٰ مقام دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں اخلاقی قدروں کی اہمیت گھٹ جاتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔