ولادیمیر پوٹن کو اقتدار میں آئے پچیس سال کا عرصہ مکمل
8 اگست 2024
روسی صدر پوٹن پچیس برس قبل نو اگست سن 1999 میں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے تھے، تب سے وہ اقتدار میں ہیں اور یہ علم نہیں کہ ان کا سیاسی کیریئر کتنا طویل ہو گا؟ لیٹیویا کے دارالحکومت ریگا سے یوری ریشیتوف کی رپورٹ۔
اشتہار
سابق سوویت اور روسی سیاسی رہنما بورس یلسن نے نو اگست سن 1999 کو ولادیمیر پوٹن کو روس کا وزیر اعظم نامزد کیا تھا۔ تب صدر کے عہدے پر تعینات بورس یلسن کو شائد علم نہ تھا کہ پوٹن کا اقتدار اتنا طویل ہو گا۔
سوویت سیاسی و انقلابی رہنما جوزف اسٹالن کے بعد پوٹن سب سے زیادہ طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والی شخصیت ہیں۔ اسٹالن نے سن 1924 تا 1954ء تک سوویت یونین کی قیادت کی۔ ان کی موت ہی انہیں اقتدار سے الگ کر سکی۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 74 برس تھی۔
سات اکتوبر سن 1952 میں پیدا ہونے والے ولادیمیر پوٹن اکہتر برس کے ہو چکے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ روس پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ مستقبل قریب تک ان کو سیاسی سطح پر چیلنج کرنے والا دور دور تک نظر نہیں آتا۔
پوٹن کے اقتدار کی مختصر تاریخ
سوویت خفیہ ایجسنی کے سابق ملازم پوٹن نو اگست انیس سو ننانوے کو وزیر اعظم بنائے گئے تھے اور اسی سال اکتیس دسمبر کو بورس یلسن نے صدر کے عہدے سے اچانک مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے پوٹن کو نگران صدر بنا دیا تھا۔
صدراتی الیکشن اگلے سال مارچ میں منعقد ہوئے، جس میں کامیابی کے بعد پوٹن نے چھبیس مارچ سن 2000 کو صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔ پوٹن نے چار سال بعد منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کی جبکہ سن 2008 کے صدارتی الیکشن میں دمتری میدویدف صدر بنے تو انہوں نے پوٹن کو وزیر اعظم بنا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تب روسی الیکشن قوانین کے مطابق کوئی شخص مسلسل دو مرتبہ ہی صدر بن سکتا تھا۔
ولادیمیر پوٹن کے سیاسی کیرئر پر ایک نظر
روس میں اٹھارہ مارچ کو منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں اقتدار پر مکمل قابض ولادیمیر پوٹن کی کامیابی یقینی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے برسراقتدار پوٹن کی سیاسی زندگی کب اور کیسے شروع ہوئی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Zemlianichenko
ولادت اور ابتدائی تعلیم
ولادیمیر ولادیمیروِچ پوٹن سات اکتوبر سن انیس سو باون کو سابق سوویت شہر لینن گراڈ (موجود سینٹ پیٹرز برگ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ولادیمیر پوٹن تھا، جو ایک فیکٹری میں بطور فورمین ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا بچپن ایک ایسے اپارٹمنٹ میں گزارا، جہاں تین کنبے رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے سن 1975 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
تصویر: picture-alliance/Globallookpress.com
پہلی ملازمت خفیہ ایجنسی میں
گریچویشن کے فوری بعد ہی پوٹن نے سابقہ سوویت خفیہ ایجنسی ’کمیٹی فار اسٹیٹ سکیورٹی‘ KGB میں ملازمت اختیار لی۔ بطور غیر ملکی ایجنٹ انہوں نے 1985ء تا 1990ء سابقہ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں خدمات سر انجام دیں۔ 1990ء میں پوٹن لینن گراڈ اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے نائب ڈین بن گئے۔
تصویر: AP
سیاست میں عملی قدم
جون سن 1991 میں پوٹن نے ’کے جی بی‘ سے مستعفیٰ ہوتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ تب انہوں نے لینن گراڈ کے میئر اناطولی سابچک کے مشیر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت پوٹن کو سٹی ہال میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران وہ بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کریملن میں داخلہ
سن انیس سو ستانوے میں سابق صدر بورس یلسن نے پوٹن کو کریملن کا نائب چیف ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ ایک سال بعد ہی پوٹن فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کے سربراہ بنا دیے گئے جبکہ انیس سو ننانوے میں انہیں ’رشین سکیورٹی کونسل‘ کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا، جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں روس میں اقتصادی اور سماجی مسائل شدید ہوتے جا رہے تھے۔
تصویر: Imago
بطور وزیر اعظم
نو اگست انیس سے ننانوے میں ہی بورس یلسن نے پوٹن کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ اسکنڈلز کی زد میں آئے ہوئے یلسن اسی برس اکتیس دسمبر کو صدارت کے عہدے سے الگ ہوئے گئے اور پوٹن کو عبوری صدر بنا دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صدارت کے عہدے پر براجمان
چھبیس مارچ سن دو ہزار کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پوٹن نے سات مئی کو بطور صدر حلف اٹھایا۔ تب کسی کو معلوم نہ تھا کہ پوٹن کا دور اقتدار نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ بن جائے گا۔ پوٹن کے پہلے دور صدارت میں روس نے اقتصادی مسائل پر قابو پایا، جس کی وجہ سے پوٹن کی عوامی مقولیت میں اضافہ ہوا۔
تصویر: AP
دوسری مدت صدارت
پندرہ مارچ سن دو ہزار چار کے صدارتی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر مہم چلاتے ہوئے پوٹن نے دوسری مرتبہ بھی کامیابی حاصل کر لی۔ سات مئی کے دن انہوں نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف اٹھایا۔ تاہم پوٹن کی طرف سے اقتدار پر قبضہ جمانے کی کوشش کے تناظر میں عوامی سطح پر ان کے خلاف ایک تحریک شروع ہونے لگی۔
تصویر: AP
اسرائیل کا دورہ
ستائیس اپریل سن دو ہزار سات میں پوٹن نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یوں انہوں نے ایسے پہلے روسی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل کیا، جس نے اسرائیل کا دورہ کیا ہوا۔ اسی برس برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کے دوران پوٹن لندن حکومت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون میں بہتری کا اعلان کیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/pool
صدر سے وزیر اعظم
دو مارچ سن دو ہزار آٹھ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن بطور امیدوار میدان میں نہ اترے کیونکہ روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص مسلسل دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ تاہم اس مرتبہ پوٹن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔ تب پوٹن کے انتہائی قریبی ساتھی دمتری میدودف کو روس کا صدر منتخب کیا گیا۔
تصویر: Reuters/Y. Kochetkov
تیسری مرتبہ صدر کا عہدہ
چوبیس ستمبر سن دو ہزار گیارہ کو میدودف نے ولادیمیر پوٹن کو ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ تب پوٹن نے تجویز کیا کہ اگر پارلیمانی الیکشن میں میدودف کی سیاسی پارٹی یونائٹڈ رشیا کو کامیابی ملتی ہے تو انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے۔
تصویر: Getty Images/M.Metzel
دھاندلی کے الزامات اور مظاہرے
چار مارچ سن دو ہزار بارہ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن کو 65 فیصد ووٹ ملے اور وہ تیسری مرتبہ ملکی صدر منتخب ہو گئے۔ تاہم اس مرتبہ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ انتخابی عمل کے دوران دھاندلی کی گئی۔ سات مئی کو جب پوٹن نے صدر کا حلف اٹھایا تو روس بھر میں ان کے خلاف مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا۔
تصویر: AP
چوتھی مرتبہ صدارت کے امیدوار
چھ دسمبر سن دو ہزار سترہ کو پوٹن نے اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی صدارت کے عہدے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ روس میں اٹھارہ مارچ کو ہونے والے الیکشن میں پوٹن کی کامیابی یقینی قرار دی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پوٹن نے اپوزیشن کو خاموش کرانے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اور اقتدار کے ایوانوں پر ان کا قبضہ ہے، اس لیے وہ اس الیکشن میں بھی جیت جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
12 تصاویر1 | 12
تاہم بعد ازاں اس شرط کو ختم کر دیا گیا اور صدر کی مدت کا دورانیہ چار سال سے بڑھا کر چھ سال کر دیا گیا۔ پوٹن نے بعدازاں سن دو ہزار بارہ کا صدارتی الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی اور پھر سن 2024 کے انتخابات میں بھی۔
روسی ماہر سیاسیات میخائل کومین کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اپنے پچیس سالہ دور اقتدار میں ملک کو 'دنیا کی سب سے مضبوط شخصی آمریت‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس دوران پوٹن نے ملک کے سبھی ادروں کو کمزور ہی کیا ہے۔
اشتہار
علاقائی تسلط سے طاقتور بننے کی کوشش
کومین کے بقول روس میں یہ سب کچھ علاقائی خودمختاری کے خاتمے کے بعد شروع ہوا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کریملن نے روسی علاقوں پر سیاسی تسلط جمانے کی کوشش شروع کی، جس نے اقتدار کے ایوانوں میں طاقت کے استحکام کی بنیاد رکھی۔
فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک اور روسی ماہر سیاسیات گریگوری نشنیکوف بھی اسی خیال سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر ہم پوٹن کے ابتدائی دور کے روس پر نظر ڈالیں، تو ہمیں طاقت کے کئی خود مختار مراکز دکھنے کو ملتے ہیں، جن میں آئینی اور غیر رسمی قسم کے ادارے سبھی شامل تھے۔‘‘
نشنیکوف کے بقول یہ نظام پوٹن کے آمرانہ رویے کے لیے مسائل کا باعث تھا، اس لیے پوٹن نے یہ سب تباہ کر دیا، اور خود کو طاقت کا منبع بنا دیا۔
تاہم نشنیکوف کا کہنا ہے کہ صرف یہی واحد وجہ نہیں ہے کہ پوٹن اتنے طویل عرصے سے اقتدار میں ہیں۔ گزشتہ 25 سالوں میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں، جو پوٹن کے لیے خطرناک ہو سکتے تھے۔ مثال کے طور پر،
سن 2018 میں متنازعہ پنشن اصلاحات کے بعد پیدا ہونے والی عوامی بے چینی۔
کریملن کے نقاد الیکسی ناوالنی کی موت پر بڑے پیمانے پر مظاہرے، جو مزید کچھ سال جاری رہ سکتے ہیں۔
یوکرین میں جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ کی سڑکوں پر احتجاج۔
نشنیکوف کہتے ہیں کہ تاہم روسی حکومت کی طرف سے عوامی مزاحمت کی ہر نئی کوشش کو اور زیادہ جبر سے کچل دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس میں اب کوئی ایسا شخص نہیں بچا ہے، جو پوٹن کو چیلنج کر سکے۔
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Novosti/RIA Novosti/Kremlin
7 تصاویر1 | 7
عدلیہ کا کمزور ہونا، پوٹن کی طاقت میں اضافے کا ایک اور سبب
میخائل کومین کا کہنا ہے کہ ایک اور اہم عنصر جس نے پوٹن کو اقتدار میں رہنے کے قابل بنایا وہ ان کی دوسری مدت کے دوران عدالتوں کو دانستہ طور پر کمزور کرنا تھا۔ حکام کے وفادار سبھی چیف جسٹس اپنے ماتحتوں کے مقابلے میں زیادہ اختیارات کے مالک بن چکے ہیں۔
کومن کہتے ہیں کہ اس لیے اب روسی عدالتیں آزاد نہیں رہی ہیں۔ اب یہ عدالتیں شہریوں کے خلاف ریاستی جبر کے عمل کو سست تو کر سکتی ہیں لیکن روک نہیں سکتی ہیں۔
ملک کے الیکٹورل سسٹم کو بھی صدر پوٹن اور ان کی حکمران سیاسی جماعت یونائیٹڈ روس کے حق میں بدلا جا چکا ہے۔
پوٹن کی ’شیڈو کابینہ‘
روسی ماہر سماجیات الیگزینڈر بیبیکوف کے مطابق ڈومیسٹک اپوزیشن کا سامنا کرنے کے بجائے صدر پوٹن نے خود کو ایک طرح سے اپنی 'شیڈو کابینہ‘ میں ہی پابند کر دیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ صدر پوٹن نے اس اندرونی دائرے میں ایسے لوگوں کو جمع کر رکھا ہے، جن کے ساتھ ان کے مخصوص کاروباری مفادات نتھی ہیں۔
بیبیکوف کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ کچھ کمپنیوں کو بڑے سرکاری ٹھیکے دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بھاری رقوم ملی ہے۔ ان کے بقول البتہ کنٹرول پوٹن کا ہی ہے اور وہ ذاتی طور پر ایسے کاروباری معاملات میں شامل ہیں۔
لیکن دوسری طرف عوام میں روس کی ایک ایسی تصویر پیش کی جا رہی ہے، جس میں اس ملک نے اپنی پوری تاریخ میں صرف مثبت کردار ہی ادا کیا ہے۔ بیبیکوف کہتے ہیں کہ اس پراپیگنڈے کے تحت تمام منفی پہلو مٹا دیے گئے ہیں جبکہ ماضی کے تمام تر تنازعات کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بیبیکوف کے مطابق اس وجہ سے بھی ملکی سطح پر پوٹن کی پوزشن بہتر ہوئی ہے۔
ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دینے والے یہ تینوں ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مستقبل میں ان رجحانات میں شدت آئے گی اور پوٹن آنے والے طویل عرصے تک اقتدار میں رہیں گے۔ میخائل کومین کا کہنا ہے کہ 'مسئلہ یہ ہے کہ کوئی متبادل امیدوار نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے لیے کوئی جگہ ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ پوٹن کے روس میں سن 2004 کے بعد سے اب تک سب کچھ غیر منصفانہ رہا ہے۔
گریگوری نشنیکوف کا یہ بھی کہنا ہے کہ روسیوں کو پوٹن کا کوئی متبادل نظر نہیں آتا اور وہ تبدیلی سے ڈرتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ روس میں ہمیشہ سے طاقتور حکومت کو حمایت حاصل ہوتی ہے۔
نشنیکوف کے بقول، ''وہ (روسی) ہمیشہ سے ایک مضبوط رہنما چاہتے ہیں، ایسا رہنما جو فیصلے کرے اور مسائل کو حل کرے۔ اگر عوام کو کوئی شک ہو تو وہ صدر کے بجائے علاقائی گورنروں کو قصوروار قرار دیں گے۔ جیسا کہ اگر پوٹن کو علم ہو تو وہ عوامی مسائل خود ہی حل کر دیں گے۔‘‘ نشنیکوف کا کہنا ہے کہ یہ صدیوں پرانی روسی روایت ہے۔
یوری ریشیتوف (عاطف بلوچ، ش ر)
یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع کیا گیا تھا
پوٹن کے بلیک لسٹ ارب پتی دوست کون ہیں؟
یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کے جواب میں مغربی ریاستوں نے روس کی معیشت اور صدر ولادیمیر پوٹن کے اندرونی حلقے پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
تصویر: Christian Charisius/dpa/picture alliance
ایگور سیشین
سیشین روس کے سابق نائب وزیر اعظم اور سرکاری تیل کمپنی روزنیفٹ کے چیف ایگزیکٹو افسر ہیں۔ یورپی یونین کی پابندیوں کی دستاویز میں انہیں پوٹن کے "قریب ترین مشیروں اور ان کے ذاتی دوست" کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ سیشین روس میں غیر قانونی طور پر الحاق شدہ کریمیا کے استحکام کی حمایت کرتے ہیں۔
تصویر: Alexei Nikolsky/Russian Presidential Press and Information Office/TASS/picture alliance
الیکسی مورداشوف
مورداشوف نے روس میں سب سے بڑی نجی میڈیا کمپنی، نیشنل میڈیا گروپ میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ یہ میڈیا ہاؤس یوکرین کو غیر مستحکم کرنے کی ریاستی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اس الزام کا جواب دیتے ہوئے اس ارب پتی کا کہنا تھا کہ "موجودہ جغرافیائی سیاسی تناؤ سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔'' مورداشوف نے جنگ کو ''دو برادرانہ عوام کا المیہ'' قرار دیا۔
تصویر: Tass Zhukov/TASS/dpa/picture-alliance
علیشیر عثمانوف
ازبکستان میں پیدا ہونے والے عثمانوف دھاتوں اور ٹیلی کام کے ٹائیکون ہیں۔ یورپی یونین کے مطابق عثمانوف پوٹن کے پسندیدہ اولیگارکس یا طبقہؑ امراء میں سے ایک ہیں۔ یورپی یونین نے الزام لگایا کہ اس ارب پتی نے "صدر پوٹن کا بھر پور دفاع کیا ہے اور ان کے کاروباری مسائل حل کیے ہیں۔" امریکہ اور برطانیہ نے بھی عثمانوف کو اپنی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔
تصویر: Alexei Nikolsky/Kremlin/Sputnik/REUTERS
میخائل فریڈمین اور ایون
یورپی یونین کے بیان میں فریڈمین کو "ایک اعلیٰ روسی سرمایہ کار اور پوٹن کے اندرونی حلقے کا سہولت کار قرار دیا گیا ہے۔" خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فریڈمین اور ان کے قریبی ساتھی پیوٹر ایون نے تیل، بینکنگ اور ریٹیل سے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔ یورپی یونین کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایون ان دولت مند روسی تاجروں میں سے ایک ہے جو کریملن میں پوٹن سے باقاعدگی سے ملاقات کرتے ہیں۔
تصویر: Mikhail Metzel/ITAR-TASS/imago
بورس اور ایگور روٹنبرگ
روٹنبرگ کا خاندان پوٹن کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامل قرار دیا جاتا ہے۔ بورس ایس ایم پی بینک کے شریک مالک ہیں، جو توانائی کی فرم گیز پروم سے منسلک ہے۔ ان کے بڑے بھائی آرکیڈی، جو پہلے ہی یورپی یونین اور امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں، پوٹن کے ساتھ نوجوانی سے جوڈو کی مشق کر رہے ہیں۔ بورس اور ایگور روٹنبرگ کو برطانیہ اور امریکہ نے بھی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔
تصویر: Sergey Dolzhenko/epa/dpa/picture-alliance
گیناڈی ٹمچینکو
ٹمچینکو بینک روسیا کے بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔ یورپی یونین کی دستاویز کے مطابق یہ بینک روسی فیڈریشن کے سینئر حکام کا ذاتی بینک سمجھا جاتا ہے۔ بینک نے ان ٹیلی ویژن اسٹیشنوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جو یوکرین کو غیر مستحکم کرنے کی روسی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ بینک روسیا نے کریمیا میں اپنی شاخیں بھی کھولی ہیں۔ اور یہ بینک کریمیا کے غیر قانونی الحاق کی حمایت کرتا ہے
تصویر: Sergei Karpukhin/AFP/Getty Images
ضبط شدہ کشتیاں
نئی پابندیوں میں پوٹن کے قریبی دوستوں کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور ان پر سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں اٹلی، فرانس اور برطانیہ میں بھی روس کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی کئی لگژری کشتیاں پکڑی گئی ہیں۔ سیشین، عثمانوف اور ٹمچینکو ان ارب پتیوں میں شامل تھے جن کی کشتیاں ضبط کی گئی تھیں۔ مونیر غیدی (ب ج، ع ح)