ولی عہد شیخ محمد بن زید کی طاقت اور حدود
8 جون 2019جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے مشرق وسطیٰ کے اپنے چار روزہ دورے میں ایک مشکل مشن کا آغاز کیا ہے۔ وہ ایک ایسے وقت میں اس خطے کا دورہ کر رہے ہیں، جب ایران اور سعودی عرب کے درمیان براہ راست تصادم کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ دونوں ملک خطے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔ یمن میں یہ دونوں ملک پچھلے تین برسوں سے ایک پراکسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے نتیجے میں یمنی عوام کے مصائب اور تکالیف میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ کو شاید جانا تو سعودی عرب چاہیے تھا لیکن انہوں نے امن مذاکرات کے لیے سعودی عرب کے قریب ترین اتحادی متحدہ عرب امارات کا انتخاب کیا ہے۔ وہاں پر وہ اپنے ہم منصب شیخ عبداللہ بن زید النیہان سے ملاقات کریں گے تاکہ خطے کی کشیدگی میں کمی لائی جا سکے۔ لیکن جرمنی اور متحدہ عرب امارات میں صرف یہی باقاعدہ ملاقات نہیں ہو گی۔ آئندہ پیر کے روز ابوظہبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کی طاقتور شخصیت سمجھے جانے والے شیخ محمد بن زید النیہان برلن پہنچیں گے، جہاں ان کی ملاقات جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر سے بھی ہو گی۔
ایک بے بس شہزادہ؟
ٹائم میگزین نے رواں برس شیخ محمد بن زید النیہان کو دنیا کی ایک سو بااثرترین شخصیات میں شامل کیا لیکن اس کے چند ہی ہفتوں بعد اس شہزادے کو اس کی 'بے بسی‘ کا احساس ہو گیا۔ مئی کے وسط میں متحدہ عرب امارات کے ایک ساحل پر متعدد بین الاقوامی تجارتی بحری جہازوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سعودی عرب کے تیل ٹرانسپورٹ کرنے والے بحری جہاز بھی شامل تھے۔ یہ حملے متحدہ عرب امارات کے ساحل کے قریب کیے گئے، جہاں سکیورٹی کے انتظامات ناقص تھے۔ شاید حملہ آور جانتے تھے کہ متحدہ عرب امارات کو کہاں آسانی سے ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ علاقائی سالمیت کا خیال رکھنا ولی عہد کی مرکزی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صورتحال سن انیس سو اکانوے جیسی ہوتی جا رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق شیخ محمد بن زید النیہان کا سب سے اہم تجربہ عراق کویت جنگ ہی ہے، جب صدام حسین نے اپنے چھوٹے ہمسایہ ملک کویت پر حملہ کر دیا تھا۔ اس بے بسی میں کویت کے پاس صرف ایک ہی حل بچا تھا کہ وہ بین الاقوامی مدد حاصل کرے اور اس نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو مدد کے لئے پکارا۔ خدشات ہیں کہ کہیں تاریخ دوبارہ خود کو نہ دہرائے۔
واشنگٹن میں اثرو رسوخ
کچھ عرصہ قبل ولی عہد کے ہی حکم پر متحدہ عرب امارات کے ساحلوں پر کئی ملین ڈالر کی لاگت سے فوجی مشقیں کی گئیں۔ گزشتہ ایک برس سے وہ واشنگٹن کے کئی دورے بھی کر چکے ہیں۔ مقصد صرف ایک تھا کہ قومی دفاع کے لیے نئے ہتھیار خریدے جائیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق 'واشنگٹن میں انہیں ایک انتہائی اہم خارجی آواز تصور کیا جاتا ہے اور امریکا انہی کے اصرار پر خطے میں اپنی جنگی سرگرمیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔‘‘
ولی عہد کو سب سے بڑی فکر آبنائے ہرمز کی دوسری جانب واقع ملک ایران کی ہے۔ رواں ہفتے کے آغاز پر متحدہ عرب امارات نے ناروے اور سعودی عرب کی مدد سے اپنی تحقیقات کے ابتدائی نتائج پیش کیے۔ ان کے مطابق، ''تحقیقات ابھی جاری ہیں لیکن ابھی تک سامنے آنے والے حقائق کے مطابق چار حملے جدید اور منظم طریقے سے کیے گئے تھے اور انہیں کسی ایسے کردار کا تعاون حاصل تھا، جس کی صلاحیت کافی زیادہ ہے، زیادہ تر امکانات یہی ہیں کہ انہیں کسی ملک کا تعاون حاصل تھا۔‘‘ تاہم اس میں کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا۔ ایران صرف یمن میں ہی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے سامنے نہیں کھڑا بلکہ شام میں بھی یہ ممالک ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔
خلیج میں جنگ کا خطرہ
ایران کے ساتھ طے پانے والے عالمی جوہری معاہدے سے امریکا کے نکلنے کے بعد سے خطے میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ محمد بن زید گزشتہ کئی برسوں سے اسی لیے اسلحہ خرید رہے ہیں کہ مشکل حالات میں، اسے استعمال کیا جا سکے۔ متحدہ عرب امارات کی فوج کا شمار عرب دنیا کی مسلح ترین افواج میں ہوتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہی خیال متحدہ عرب امارات کو ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافے پر آمادہ کر سکتا ہے۔
جرمنی حکام محمد بن زید کے ساتھ ممکنہ جنگ کے خطرے کے بارے میں بات چیت کریں گے۔ اگر ایسا کوئی نیا تنازعہ شروع ہوتا ہے تو جرمنی بھی اس سے متاثر ہو گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر یورپ کی طرف رخ کر سکتی ہے۔ جرمنی نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر چھ ماہ کی پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن متحدہ عرب امارات کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ جرمنی کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اس کے ہتھیار کسی نئے ممکنہ تنازعے میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ جرمنی متحدہ عرب امارات کی اس بااثر شخصیت کے ذریعے ایک نئے مسلح تنازعے کو روکنا چاہتا ہے۔
ا ا / ع س، ڈی ڈبلیو