محمد بن سلمان نے سعودی ولی عہدہ کا منصب سنبھالنے کے بعد ایک ہی برس میں اس انتہائی قدامت پسند ملک میں سماجی اور سیاسی سطح پر کئی اہم تبدیلی کیں۔ آئیے اس ایک سال کے اہم لمحات پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
اشتہار
21 جون 2017 کو سعودی فرما رواں شاہ سلمان نے اپنے بھتیجے سے ولی عہد کا منصب واپس لے کر اپنے 31 سال بیٹے محمد بن سلمان کے حوالے کر دیا۔ محمد بن سلمان کو عمومی طور پر ایم بی ایس کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ انہوں نے وزارت دفاع کا قلم دان بھی اپنے پاس رکھا اور ولی عہد کے بہ طور بادشاہ کی زیادہ تر طاقت اور اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اسی تناظر میں سعودی عرب میں غیرمعمولی طور پر تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔
جون میں قطر کے ساتھ خلیجی ممالک کے تنازعے کا آغاز ہوا۔ ریاض اور اس کے دیگر تین عرب اتحادیوں نے دہشت گردی کی معاونت کے الزامات عائد کرتے ہوئے دوحہ حکومت کے ساتھ تمام تر تعلقات منقطع کر دیے۔ قطر ان الزامات کی تردید کی کرتا ہے۔
گزشتہ برس ستمبر میں اہم مذہبی رہنماؤں اور دانش وروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ یہ تمام ایسے افراد تھے، جو ولی عہد پر تنقید کرتے تھے۔
سعودی عرب کے تاراج شہر میں خوش آمدید
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملک کے دروازے سب کے لیے کھولنا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں سیاح آثار قدیمہ کا ایک نایاب خزانہ دیکھنے کے قابل ہوں گے۔ العلا نامی یہ قدیمی نخلستان ملک کے شمال مغرب میں واقع ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
قدیم تہذیب
العلا کبھی خطے کے مختلف تجارتی راستوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس مقبرے کی طرح یہ علاقہ آثار قدیمہ کے خزانے سے بھرا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
ایک سو گیارہ مقبرے
مدائن صالح سعودی عرب کے مشہور شہر مدینہ سے تقریبا چار سو کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ العلا کے مضافات میں واقع یہ آثار قدیمہ سن دو ہزار آٹھ سے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔ دو ہزار برس پہلے یہاں پتھروں کو تراشتے ہوئے ایک سو گیارہ مقبرے بنائے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
انجینئرنگ کا بہترین نمونہ
قدیم دور میں یہ قوم الانباط کا مرکزی اور تجارتی علاقہ تھا۔ یہ قوم اپنی زراعت اور نظام آبپاشی کی وجہ سے مشہور تھی۔ یہ قوم نظام ماسيليات (ہائیڈرالک سسٹم) کی بھی ماہر تھی اور اس نے اس خشک خطے میں پانی کے درجنوں مصنوعی چشمے تیار کیے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
قدیم زمانے کے پیغامات
قدیم دور کا انسان کئی پیغامات پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہ وہ جملے ہیں، جو دو ہزار برس پہلے کنندہ کیے گئے تھے۔ امید ہے سیاح انہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
مل کر حفاظت کریں گے
سعودی ولی عہد نے فرانس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک مل کر ایسے قدیم شہروں کی حفاظت کریں گے تاکہ آئندہ نسلیں بھی ان کو دیکھ سکیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
ایک نظر بلندی سے
اس کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے پہلے اس سے متعلقہ تمام اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں۔ مارچ میں پیمائش کے دو سالہ پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے لیے سیٹلائٹ تصاویر، ڈرونز اور ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سیاحوں کے لیے ویزے
ابھی تک صرف مخصوص شخصیات کو ہی ان آثار قدیمہ تک جانے کی اجازت فراہم کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر سن دو ہزار پندرہ میں برطانوی پرنس چارلس کو العلا میں جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب سعودی عرب تمام سیاحوں کی ایسے اجازت نامے فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/J. Stillwell
قیام گاہوں کی کمی
تین سے پانچ برسوں تک تمام سیاحوں کی رسائی کو العلا تک ممکن بنایا جائے گا۔ ابھی یہ شہر سیاحوں کی میزبانی کے لیے تیار نہیں ہے۔ فی الحال وہاں صرف دو ہوٹل ہیں، جن میں ایک سو بیس افراد قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
8 تصاویر1 | 8
پچھلے سال نومبر میں سعودی عرب میں شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد، وزراء اور متعدد اہم کاروباری شخصیات سمیت قریب 380 سعودی شہریوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ریاض حکومت کے مطابق محمد بن سلمان کی ہدایات پر یہ گرفتاریاں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کا حصہ تھیں۔ ان میں سے کئی ایسے تھے، جنہیں ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل میں کئی ہفتوں کو نظر بند رکھا گیا۔ بعد میں ان میں سے کئی افراد کی رہائی بھاری رقوم حکومت کو واپس کرنے کی صورت میں ہوئی۔
ستمبر 2017 ء میں سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کے خاتمے کا حکم نامہ جاری کیا گیا، جس کا کہا گیا کہ اس کا اطلاق جون 2018 سے ہو گا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے وژن 2030 کے نام سے ملک میں سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں کا ایک پروگرام متعارف کرایا۔ یہ منصوبہ محمد بن سلمان نے ولی عہد کا منصب سنبھالنے سے قبل تیار کیا تھا۔
سعودی اصلاحات یا پھر اقتدار کی رسہ کشی
سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں اور سابق وزراء کو بد عنوانی کے الزامات کے تحت حالیہ دنوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ممکنہ حریفوں کو کمزور کر کے حکومت پر گرفت مضبوط کر سکیں گے؟
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
انسداد بد عنوانی کمیٹی کا قیام
سعودی دارالحکومت ریاض میں انسداد بد عنوانی کی غرض سے شروع کی جانے والی نئی مہم کے دوران اب تک قریب گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جنب سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/B. Press
ملکی بہتری یا پھر ممکنہ حریفوں کی زباں بندی؟
نئی تشکیل دی گئی اس کمیٹی کے پاس مختلف طرز کے اختیارات ہیں۔ ان اختیارات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، اثاثوں کو منجمد کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ پرنس سلمان نے حال ہی میں ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
شہزادہ الولید بن طلال کے ستارے گردش میں
الولید کا شمار مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، روپرٹ مرڈوک، سٹی گروپ، فور سیزن ہوٹلز اور لفٹ سروس میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ سعودی شہزادوں میں سب سے بے باک تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سرکاری تصدیق نہیں ہوئی
گرفتار شدہ افراد میں اطلاعات کے مطابق سابق وزیر خزانہ ابراہیم الاصف اور شاہی عدالت کے سابق سربراہ خالد التویجری بھی شامل ہیں۔ تاہم اس بارے میں سعودی حکومت کا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر ان گرفتاریوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images
اتنا بہت کچھ اور اتنا جلدی
دوسری جانب نیشنل گارڈز کی ذمہ داری شہزادہ مِتعب بن عبداللہ سے لے کر خالد بن ایاف کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کو شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے بھی اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ ریاض ہی میں موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/M. al-Sayaghi
5 تصاویر1 | 5
اس کے علاوہ سعودی عرب میں سنیما گھروں کو دوبارہ کھولنے، مردوں اور خواتین کے ایک ساتھ موسیقی کے کنسرٹس میں شرکت اور تفریح سے متعلق متعدد اہم اقدامات بھی دیکھنے میں آئے، تاہم ناقدین کے مطابق خواتین کے خلاف اب بھی متعدد پابندیاں موجود ہیں۔ جب کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن تاحال جاری ہے۔
ایک انٹرویو میں محمد بن سلمان نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کو اپنی اپنی زمین کا حق حاصل ہے، جو فلسطین سے متعلق سعودی عرب کے ایک دیرینہ موقف میں تبدیلی کے طور پر دیکھا گیا، تاہم بعد میں شاہ سلمان نے فلسطینیوں سے متعلق سعودی عزم کا اعادہ کیا۔