برطانیہ میں ٹینس کے مشہور گرینڈ سلیم ٹورنامنٹ ومبلڈن کے منتظمیں نے روس اور بیلاروس کے کھلاڑیوں پر رواں برس شرکت پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اشتہار
آل انگلینڈ لان ٹینس کلب (AELTC) جو ومبلڈن ٹینس ٹورنامنٹ کا انعقاد کرواتا ہے، نے اعلان کیا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں روس اور بیلاروس کے کھلاڑیوں کی اس عالمی ٹورنامنٹ میں شرکت پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس پابندی کا مقصد عالمی سطح پر روسی اثرورسوخ کو تمام ممکنہ طریقوں سے محدود بنانے کی ایک کوشش ہے۔ اس فیصلے پر ایسوسی ایشن آف ٹینس پروفیشنلز (ATP) اور ورلڈ ٹینس ایسوسی ایشن (WTA) نے تنقید کرتے ہوئے اسے 'افسوس ناک‘ اور 'نامناسب‘ قرار دیا ہے۔
عالمی نمبر دو روسی کھلاڑی ڈانیل میدیویدیف اور بیلاروسی خاتون کھلاڑی اور عالمی نمبر چار آرینا سابالینکا گزشتہ برس ومبلڈن کے سیمی فائنل تک پہنچے تھے، تاہم اس بار وہ پابندی کی زد میں آنے والے کھلاڑیوں میں اہم ترین ہیں۔
ومبلڈن ٹورنامنٹ انتظامیہ کے مطابق، ''روس کی جانب سے غیرعمومی اور غیرمناسب فوجی جارحیت کے حالات ہیں، جن میں روسی حکومت کو روسی یا بیلاروسی کھلاڑیوں کی عالمی مقابلوں میں شرکت سے فائدہ پہنچنا ناقابل قبول عمل ہو گا۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''برطانیہ اور دنیا بھر میں چیمپیئن شپس کے پروفائل کے تناظر میں یہ حکومت، صنعت، کھیلوں اور تخلیقی اداروں کے ساتھ ساتھ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ تمام ممکنہ طریقوں سے عالمی سطح پر روسی اثرورسوخ کو کم کرنے کی کوششوں کا حصہ بنیں۔‘‘
اس ادارے نے برطانیہ بھر میں ومبلڈن کے علاوہ کوئن کلب اور ایسٹ بورن جیسے وارم اپ اوینٹس میں بھی روسی اور بیلاروسی کھلاڑیوں پر پابندی عائد کی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ عالمی سطح پر ایسوسی ایشن آف ٹینس پروفیشنلز اور ورلڈ ٹینس ایسوسی ایشن کے مقابلوں میں روسی اور بیلاروسی کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت ہے، تاہم انہیں ان ایونٹس میں اپنے قومی پرچم کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ اس سے قبل انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن بھی ان دونوں ممالک کے کھلاڑیوں کو ڈیوس کپ اور بیلی جین کنگ کپ میں شرکت سے روک چکی ہے۔
یوکرین: تباہی اور شکستہ دلی کے مناظر
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
تاہم اے ٹی پی اور ڈبلیو ٹی اے نے ومبلڈن کی جانب سے اس پابندی پر تنقید کرتے ہوئے اسے امتیازی اور نقصان دہ روایت قرار دیا ہے۔ اے ٹی ہی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''ہم ومبلڈن کی جانب سے یک طرف پابندی اور روس اور بیلاروس کے کھلاڑیوں پر برطانوی گراس کورٹس میں کھیلنے سے منع کرنے کو ایک خطرناک روایت اور نامناسب اقدام سمجھتے ہیں۔ قومیت کی بنیاد پر امتیاز ومبلڈن کے ساتھ ہمارے معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے، کیوں کہ ہمارے معاہدے کے مطابق کھلاڑیوں کی ٹورنامنٹ میں انٹری کی بنیاد ان کی شہریت نہیں بلکہ اے ٹی پی رینکنگ ہے۔‘‘