شمالی کوریا نے کہا ہے کہ سرمائی اولمپک مقابلوں کے موقع پر کوئی سیاسی گفتگو نہیں کی جائے گی۔ جنوبی کوریا میں منعقد ہونے والے ان مقابلوں میں شمالی کوریا کا ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی شریک ہو رہا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنوبی کوریا میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپک مقابلوں کے موقع پر سیاسی گفتگو سے احتراز کیا جانا چاہیے۔ ایک بیان کے مطابق جمعے سے شروع ہونے والے ان مقابلوں میں جانے والا شمالی کوریائی وفد امریکی حکام سے ملنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے۔ ان عالمی کھیلوں میں امریکا کی نمائندگی نائب صدر مائیک پینس کر رہے ہیں۔
ان اولمپک مقابلوں میں شمالی کوریا کے وفد کی شرکت سے ایسی توقع ظاہر کی جا رہی تھی شاید کھیلوں کی مدد سے جزیرہ نما کوریا پر پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
تاہم پیونگ یانگ حکومت کی طرف سے اس تازہ بیان کے باعث ایسی امیدیں دم توڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں اور شمالی کوریا اور عالمی طاقتوں کے مابین ’برف پگھلنے‘ کی توقعات معدودم ہو گئی ہیں۔
ونٹر اولمپک مقابلوں میں شرکت کی خاطر امریکی صدر مائیک پینس جمعرات کے دن شمالی کوریا پہنچے۔ ان مقابلوں کی رنگا رنگ افتتاحی تقریب شمالی کوریائی سرحد سے 80 کلو میٹر دور واقع پہاڑی مقام پیونگ چانگ میں منعقد کی جا رہی ہے۔
اس تقریب میں شمالی کوریائی رہنما کم جونگ ان کی بہن کم یو جونگ اور اس کمیونسٹ ملک کے رسمی سربراہ ریاست کم یونگ نم بھی شریک ہوں گے۔ شمالی کوریائی وفد ایک خصوصی پرواز کے ذریعے جمعے کی دوپہر سیول پہنچے گا۔
جعمرات کے دن شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ اہلکار جو یونگ سم کے حوالے سے بتایا، ’’ہم نے کبھی بھی امریکا سے مذاکرات کرنے کی بھیک نہیں مانگی ہے۔ مستقبل میں بھی ہم ایسا نہیں کریں گے۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جنوبی کوریا میں قیام کے دوران شمالی کوریائی وفد امریکی اہلکاروں سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ہمارے اس وفد کا واحد مقصد اولمپک مقابلوں میں شرکت کرنا ہے۔‘‘
امریکی صدر مائیک پینس نے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت نے شمالی کوریائی وفد سے ملاقات کرنے کی کوئی درخواست نہیں کی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ موزوں ہوا تو یہ ملاقات ہو بھی سکتی ہے۔
پینس نے جنوبی کوریا روانہ ہونے سے قبل جاپانی درالحکومت ٹوکیو میں صحافیوں کو بتایا کہ اگر ان کھیلوں کے موقع پر شمالی کوریا کے کسی رہنما سے ملاقات ہوتی بھی ہے تو ان کا پیغام یہی ہو گا کہ پیونگ یانگ کو اپنا جوہری اور میزائل پروگرام ترک کر دینا چاہیے۔
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
جزیرہ نما کوریا پر جنگ تین سالوں تک جاری رہی۔ اس دوران اقوام متحدہ اور امریکا نے جنوبی کوریا کا جب کہ چین اور سابقہ سوویت یونین نے شمالی کوریا کا ساتھ دیا۔ جنگ کے اختتام پر تقریباً پچاس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: AP
تین سالہ جنگ کا آغاز
شمالی کوریا کی فوجیں 25 جون 1950ء کو جنوبی کوریا میں داخل ہو گئی تھیں۔ جنگ شروع ہونے کے چند دنوں بعد ہی جنوبی کوریا کے تقریبًا تمام حصے پر کمیونسٹ کوریا کی فوجیں قابض ہو چکی تھیں۔ تین سال جاری رہنے والی اس جنگ میں تقریباً 4.5 ملین افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
جنگ سے پہلے کی تاریخ
جزیرہ نما کوریا 1910ء سے لے کر 1945ء تک جاپان کے قبضے میں رہا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سے منقسم چلا آ رہا ہے۔ شمال کا حصہ سوویت کنٹرول میں چلا گیا جب کہ جنوبی حصے پر امریکی دستے قابض ہو گئے۔ اگست 1948ء میں جنوبی حصے میں ری پبلک کوریا کے قیام کا اعلان کر دیا گیا جب کہ اس کے رد عمل میں جنرل کم ال سونگ نے نو ستمبر کو عوامی جمہوریہ کوریاکی بنیاد رکھ دی۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
اقوام متحدہ کا کردار
شمالی کوریا کی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے بعد امریکا اور اقوام متحدہ نے فوری طور پر جنوبی کوریا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بیس ممالک کے چالیس ہزار فوجیوں کو جنوبی کوریا روانہ کیا گیا، ان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 36 ہزار تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
آپریشن ’ Chromite‘
15ستمبر 1950ء کو امریکی جنرل ڈگلس مک کارتھر کی قیادت میں اتحادی دستے ساحلی علاقے ’ Incheon ‘ پہنچے اور اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد سیول دوبارہ سے جنوبی کوریا کے زیر قبضہ آ چکا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ماؤ کے دستوں کی مدد
1950ء کے اکتوبر میں چین کی جانب سے اس تنازعے میں باقاعدہ مداخلت کی گئی۔پہلے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں اور بعد ازاں رضاکاروں کا ایک بہت بڑا دستہ شمالی کوریا کی مدد کو پہنچا۔پانچ دسمبر کو پیونگ یانگ اتحادی فوجوں سے آزاد کرا لیا گیا۔
تصویر: Claude de Chabalier/AFP/Getty Images
جوابی کارروائی
جنوری 1951ء میں چین اور شمالی کوریا نے مل کر ایک بڑی پیش قدمی شروع کی۔ اس میں چار لاکھ چینی اور شمالی کوریا کے ایک لاکھ فوجی شامل تھے۔ اس دوران شمالی کوریا کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ امریکا نے چین پر جوہری بم سے حملہ کرنے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تھکاوٹ کا شکار
1951 ءکے آخر میں جنگ اسی مقام پر پہنچ چکی تھی، جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی یعنی فریقین جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں میں اپنی اپنی سرحدوں میں موجود تھے۔ جولائی 1951ء میں فائر بندی مذاکرات شروع ہونے کے باوجود 1953ء کے موسم سرما تک دونوں وقفے وقفے سے ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہتے تھے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
دو نظاموں کی جنگ
کوریائی جنگ کو سرد جنگ کے دوران مشرق اور مغرب کے درمیان پہلی پراکسی وار کہلاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے دستوں میں امریکی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی جب کہ دوسری جانب شمالی کوریا کی پشت پناہی کے لیے چین اور روس کے لاکھوں سپاہی موجود تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
بے پناہ تباہی
اس جنگ میں امریکی افواج نے ساڑھے چار لاکھ ٹن بارود استعمال کیا۔ بمباری کا یہ عالم تھا کہ1951ء کے اواخر میں امریکی پائلٹوں نے یہ شکایات کی تھیں کہ شمالی کوریا میں اب کوئی ایسی چیز نہیں بچی ہے، جسے وہ ہدف بنا سکیں۔ شمالی کوریا کے تقریباً تمام بڑے شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
لاکھوں افراد ہلاک
1953ء میں جب اتحادی دستوں کا انخلاء شروع ہوا تو اس وقت تک کئی لاکھ افراد موت کے منہ میں جا چکے تھے۔ اس دوران اندازہ لگایا جاتا ہے شمالی اور جنوبی کوریا کے ملا کر پانچ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ چار لاکھ چینی فوجی اور اس جنگ کے دوران مرنے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
جنگی قیدیوں کا تبادلہ
1953ء میں اپریل کے وسط اور مئی کے آغاز میں فریقین کے مابین قیدیوں کا پہلی مرتبہ تبادلہ ہوا اور اسی سال کے اختتام تک تبادلے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا کے پچہتر ہزار اور تقریباً سات ہزار چینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ دوسری جانب سے ساڑھے تیرہ ہزار قیدی رہا کیے گئے، جن میں تقریباً آٹھ ہزار جنوبی کوریا کے تھے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
فائربندی سمجھوتہ
دس جولائی1951ء کو جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوئے اور بالآخر دو سال بعد 27 جولائی کو معاملات طے پا گئے۔ تاہم اس سمجھوتے پر دستخط نہیں نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک ابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
ساٹھ سال بعد بھی دشمن
اس جنگ کو ختم ہوئے ساٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ دونوں ممالک کشیدگی کی حالت میں ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیانی سرحد کی نگرانی انتہائی سخت ہے۔ ابھی بھی سرحد کے اطراف دونوں ملکوں کے سپاہی چوکنا کھڑے ہوتے ہیں۔