وولف کے خطاب میں تارکین وطن کےبہتر انضمام پر زور
4 اکتوبر 2010کرسٹیان وولف نے کہا کہ آج کے دور میں مستقبل صرف اسی ریاست کا ہو گا، جو خود کو دوسری ثقافتوں کے لئے کھلا رکھنا جانتی ہے۔ اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے فولکر واگنر کا لکھا تبصرہ:
کرسٹیان وولف نے اپنی کہی ہوئی بات پر عمل کیا۔ ان کے تیس منٹ دورانیے کے خطاب میں بیس سال قبل جرمن اتحاد کے وقت کی صورت حال یا آج کے حالات کے بارے میں کم سننے کو ملا اور غیر ملکی تارکین وطن کی آمد اور ان کے سماجی انضمام کی کوششوں کے بارے میں زیادہ۔
اس کا سبب یہ ہے کہ جرمنی میں کچھ عرصے سے ایسے تارکین وطن کے بارے میں کھلی بحث جاری ہے جو یہاں رہتے تو ہیں مگر اپنے سماجی انضمام کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ ایسے غیر ملکیوں پر الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ وہ جرمنی میں رہتے ہوئے جرمن زبان نہیں سیکھتے، جرمنی کے بنیادی آئین کو تسلیم نہیں کرتے اور صرف عوامی شعبے سے ملنے والی مالی امداد پر گذارہ کرتے ہیں۔
جرمن صدر نے ان مسائل اور ایسے الزامات کی نام لے کر نشاندہی تو کی لیکن دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ گزشتہ کافی عرصے سے جرمنی کی داخلی سیاسی پالیسیاں کن وجوہات کی بناء پر اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس لئے کہ ترکِ وطن کر کے جرمنی آنے والوں کے لئے جرمن زبان سیکھنا اور جرمن قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرنا تو پہلے ہی سے لازمی ہے۔
وفاقی جرمن صدر نے اپنے خطاب میں اسلام کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ بہت معنی خیز ہے۔ مسیحیت اور یہودیت تو جرمنی کے ماضی اور حال کا حصہ ہیں ہی، لیکن صدر وولف کے بقول اب اسلام بھی جرمنی اور جرمن معاشرے کا حصہ ہے۔ یہ ایک ایسا واضح مؤقف ہے جس کا کرسٹیان وولف سے پہلے کسی دوسرے وفاقی جرمن رہنما نے اتنا کھل کر کبھی اظہار نہیں کیا تھا۔
کرسٹیان وولف نے ایسے کثیرالثقافتی تصورات پر بھی تنقید کی، جو نئے سرابوں کو تو جنم دیتے ہیں مگر اصل مسائل کے حل میں مدد نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی ایک طویل عرصے سے تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کرنے والا ملک ہے۔ یہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے جس کا جرمن قدامت پسندوں میں سے بہت سے ابھی تک اعتراف نہیں کرتے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جرمنی میں روزمرہ کی سیاست صدارتی خطاب میں کہی گئی ان باتوں پر کب اور کتنا عمل کرتی ہے یا ان پر بحث کرتی ہے۔ جرمن صدر نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ تارکین وطن کے خاندانوں کے لئے جرمن زبان کی تدریس کی زیادہ جامع پیشکشوں کا اہتمام کیا جانا چاہئے اور جرمن اسکولوں میں اسلام کی تعلیم جرمن زبان میں اور جرمن اساتذہ کی طرف سے دی جانی چاہئے۔
یوم اتحاد جرمنی کے موقع پر وفاقی جرمن صدر نے ملک میں تارکین وطن سے متعلق اپنی ترجیحات کو جرمن اتحاد کے موضوع کے ساتھ بڑی خوبصورتی سے یکجا کر دیا۔ یعنی 1989 میں ’’ہم ایک قوم ہیں‘‘ کا جو نعرہ سابقہ مشرقی جرمن باشندے لگاتے تھے، اسے کرسٹیان وولف نے یہ کہہ کر دہرایا کہ اب اس نعرے کا مطلب وہ تمام انسان ہونے چاہیئں جو جرمنی میں آباد ہیں۔
جرمن آئین کے تحت وفاقی صدر کو بہت کم سیاسی اختیارات حاصل ہیں۔ لیکن جرمن صدر کے الفاظ میں ان کے عہدے کی وجہ سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔ جرمنی میں سربراہ مملکت کے عہدے کا مقصد ہی یہ ہے کہ صدر اس وفاقی جمہوریہ میں پائے جانے والے ذہنی اور فکری روئیوں پر اثر انداز ہو سکے۔
اسی لئے تین اکتوبر کے روز کرسٹیان وولف کی تقریر میں تارکین وطن اور اسلام کا اتنا زیادہ ذکر بہت اہم ہے۔ اس لئے بھی کہ یہ خطاب ان کا بطور صدر اپنی نوعیت کا پہلا اہم ترین خطاب تھا۔ اگر جرمنی میں تارکین وطن کے سماجی انضمام سے متعلق موجودہ بحث کو دیکھا جائے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ جرمن صدر نے بریمن میں اپنے خطاب کے ساتھ جرمنی میں تارکین وطن سے متعلق سیاست کے رخ کا کسی حد تک تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔
تحریر: فولکر واگنر
ترجمہ: مقبول ملک
ادارت: عصمت جبیں