پاکستان میں ایک ٹرانسجینڈر انتخابی امیدوار ندیم کشش کا کہنا ہے کہ اُن کی جدوجہد اقتدار کے حصول کے لیے نہیں بلکہ پاکستانی سماج میں اُن کی برادری کی قبولیت کے لیے ہے۔
اشتہار
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے تریپن سے الیکشن میں کھڑی ہونے والی ٹرانسجینڈر امیدوار ندیم کشش نے اپنے حلقے میں انتخابی مہم کے دوران رہائشیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،’’میں پہلی بار قومی انتخابات میں حصہ لے رہی ہوں۔ مجھے ایک موقع دیجیے۔ آپ کا دیا ہوا ووٹ میری شناخت بنے گا۔‘‘
اسلام آباد کے حلقہ این اے تریپن سے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان تحریک انصاف کے اسد عمر بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ کشش جانتی ہیں کہ ایسے میں اُن کی جدوجہد بے سود ہے لیکن وہ پھر بھی ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو سوسائٹی میں شناخت اور قبولیت دلوانے کے لیے زور و شور سے اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ندیم کشش نے مہم میں بانٹنے کے لیے پمفلٹ بھی چھپوائے ہیں جن پر دو جملے درج ہیں۔ اوّل یہ کہ،’’ آئندہ نسلوں کے لیے پانی بچائیں۔‘‘ اور دوسرا یہ کہ،’’ مجھے ووٹ دیں۔‘‘
کشش کا کہنا ہے،’’ پچیس جولائی کو ہونے والے الیکشن میں جیت یا ہار سے مجھے کوئی مطلب نہیں ہے۔ ہمیں حکومت نے الیکشن کے عمل کا حصہ بننے کا ایک موقع دیا ہے اور ہم اسے پوری طرح استعمال کریں گے۔‘‘
پاکستان میں ’خواجہ سرا‘ کہلانے والی ٹرانسجینڈر برادری ابھی تک اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ تاہم سن 2009 میں پاکستان ایسے افراد کو تیسری جنس کے طور پر قانوناﹰ شناخت دینے والا پہلا ملک بن گیا تھا۔ تیسری جنس کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت بھی دی گئی اور ماضی میں مخنث افراد نے الیکشن میں حصہ بھی لیا۔
رواں ماہ کی پچیس تاریخ کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات البتہ اس لحاظ سے تاریخی ثابت ہوں گے کہ اس مرتبہ حکام نے امیدواروں کے لیے جنس ظاہر کرنا لازمی معیار قرار نہیں دیا۔
پاکستان الیکشن کمیشن کے ترجمان الطاف احمد کا کہنا ہے کہ اسی طرح ٹرانسجینڈر ووٹروں کو آزادی ہو گی کہ مردانہ یا زنانہ جس پولنگ بوتھ میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنا چاہیں، کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں ٹرانسجینڈر افراد کی تعداد کئی جائزوں کے مطابق پانچ لاکھ تک ہے تاہم تیسری جنس یا ٹرانسجینڈروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ٹرانس ایکشن کا کہنا ہے کہ یہ تعداد دو ملین تک ہو سکتی ہے۔
رواں برس مئی کے مہینے میں خواجہ سراؤں کے حق میں ایک قانون پاس کیا گیا۔ اس قانون کے تحت انہیں اپنی جنس طے کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔ وہ خود کو مرد، عورت یا پھر دونوں جنسوں کا ملاپ کہلانے کا حق رکھتے ہیں اور وہ تمام سرکاری دستاویزات، جیسا کہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس، میں اپنی جنس ظاہر کر سکتے ہیں۔
ص ح / ع ت / اے ایف پی
حسین ترین خواجہ سرا، اسرائیل میں انوکھا مقابلہ
اسرائیل میں گیارہ خواجہ سراؤں نے اپنے خلاف نسلی امتیاز کو نمایاں کرنے اور ملکہٴ حسن کے تاج کے لیے اپنی نوعیت کے پہلے مقابلہٴ حسن میں حصہ لیا۔ عرب مسیحی تالین ابو شانا کو ملک کا حسین ترین خواجہ سرا منتخب کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Balilty
ان میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے
یہ مقابلہ تل ابیب میں اسرائیلی نیشنل تھیٹر میں ہوا۔ ملکہٴ حسن کا تاج تالین ابو شانا کے سر پر سجا، جس نے اپنے تاثرات میں کہا:’’یہ تاج اتنا اہم نہیں ہے۔ ہمیں کسی کی ضرورت نہیں، جو ہمیں یہ بتائے کہ کون زیادہ حسین ہے، ہم میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے۔‘‘ اس فاتح خواجہ سرا کو تھائی لینڈ میں زیادہ خوبصورت بننے کے آپریشنز کے لیے تقریباً ساڑھے تیرہ ہزار یورو کے برابر رقم ملے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Sultan
بین الاقوامی اسٹیج پر
تالین ابوشانا کا تعلق الناصرہ سے ہے۔ وہ مسیحی ہے اور اس کا تعلق ایک عرب خاندان سے ہے۔ یوں خواجہ سرا کے طور پر اُسے دوہرے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اکیس سالہ بیلے رقاصہ تالین اب اسپین کے شہر بارسلونا میں ’مِس ٹرانس سٹار‘ کے نام سے ہونے والے خواجہ سراؤں کے بین الاقوامی مقابلہٴ حسن میں شرکت کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین
یہ مقابلہٴ حسن تل ابیب میں خواجہ سراؤں، ہم جنس پرست مردوں اور ہم جنس پرست عورتوں کے سالانہ جشن کا نقطہٴ آغاز تھا۔ یہ اسرائیلی شہر اس طرح کے مرد و زن اور مخنث افراد کے ایک گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سال کی تقریبات کو ’ویمن فار اے چینج‘ یعنی ’تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد حقوق کے طالب
’مِس ٹرانس‘ نامی اس مقابلہٴ حسن کی داغ بیل اسرائیلا اسٹیفانی لیو نے ڈالی ہے۔ وہ خود بھی ایک خواجہ سرا ہے اور اُسے امید ہے کہ اس مقابلے کے ذریعے لوگ خواجہ سراؤں اور مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد کے حالات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے:’’ہم مساوی حقوق کے حامل افراد کے درمیان مساوی حقوق چاہتے ہیں‘‘۔ انعامات تقسیم ہونے لگے تو لیو نے چِلاّ کر کہا:’’یہ خواجہ سرا کمیونٹی کی آزادی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/Abir Sultan
مختصر ملبوسات، طویل داستانیں
اس شام کے مقابلے میں شریک خواجہ سرا ایک طویل سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ یہ سب پہلے لڑکے تھے لیکن چونکہ اُن کے میلانات مختلف تھے، اس لیے انہوں نے تبدیلیٴ جنس کا آپریشن کروا لیا۔ اسرائیل ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ خواجہ سرا کمیونٹی کے ارکان کو نفرت اور امتیازی سلوک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
بڑے شہر میں آ کر پناہ لی
اس تصویر میں آئلین بن زیکن میک اپ کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اُسے ’مِس فوٹوجینک‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اُس کا تعلق یروشلم کے ایک انتہائی قدامت پسند گھرانے سے ہے۔ بیکری مصنوعات کی ماہر آئلین بتاتی ہے کہ کیسے اُس کے پاس پڑوس کے لوگ اُسے حقارت سے دیکھا کرتے تھے:’’مجھے بار بار گالیاں دی جاتی تھیں، حتیٰ کہ میں تنگ آ کر تل ابیب آ گئی۔‘‘ اب وہ صرف اپنی ماں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lemel
گھر والوں کی بھی نفرت کا نشانہ
اس مقابلے میں شریک دیگر خواجہ سراؤں کی کہانی بھی مختلف نہیں ہے۔ زیادہ تر خواجہ سراؤں کے گھر والے پہلے اُن کے اپنی اصل شناخت کے سفر کو اور پھر اُن کے تبدیلیٴ جنس کے آپریشنز کو رَد کرتے ہیں۔ ان میں سے متعدد ایسے ہیں، جن کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Abir Sultan
دانشمندی کا راستہ
آیا اس مقابلے سے خواجہ سراؤں کی جانب لوگوں کی سوچ میں کوئی تبدیلی آئے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اسرائیلی اخبار ’ہاریٹس‘ لکھتا ہے:’’ایک ایسی حقیقی صورتِ حال میں، جہاں خواجہ سرا کمیونٹی کی یہ خواتین معاشرے میں اپنے جائز حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں، مِس ٹرانس 2016ء کا مقابلہ دانشمندی کے راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘