وِلا معاملہ، جرمن صدر کا اعتراف، نئی بحث کا آغاز
19 دسمبر 2011سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس اعتراف کے بعد گزشتہ 18 ماہ سے جرمن صدر کی ذمہ داریاں نبھانے والے کرسٹیان وولف کو اپنے عہدے سے ہاتھ بھی دھونا پڑ سکتے ہیں۔ گو جرمنی میں صدر ایک علامتی عہدے کا نام ہے تاہم قدامت پسند جماعت سی ڈی یو کی چانسلر میرکل نے کرسٹیان وولف کو صدر منتخب کروانے کے لیے خاصی متحرک رہی تھیں۔ اب اپوزیشن رہنما انگیلا میرکل کو بھی اسی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کرسٹیان وولف عہدہ صدارت سنبھالنے سے پہلے سن 2003ء سے 2010ء تک جرمن ریاست لوئر سکسینی کے وزیراعلی کے عہدے پر فائر رہ چکے ہیں۔
میڈیا کی جانب سے انتہائی دباؤ کے شکار کرسٹیان وولف نے اپنے وکلا کی وساطت سے بیان میں کہا کہ جب وولف وزیراعلیٰ تھے، تو انہوں نے اپنے کاروباری دوستوں کے ایک بنگلے میں اپنی چھ روزہ نجی تعطیلات گزاری تھیں۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ان نجی تعطیلات کا ان کے ’پبلک آفس‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور انہوں نے اپنے کسی رویے سے لوئر سکسینی کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی۔
52 سالہ وولف کے بارے میں جنوری 2010ء میں پہلی مرتبہ میڈیا پر منفی رپورٹیں نشر ہوئی تھیں۔ ان رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ کرسمس چھٹیوں کے لیے وہ امریکہ میں اپنے ایک کاروباری دوست ایگون گیرکنز کے ٹھہرے تھے، جب کہ انہوں نے اس پرواز میں بزنس کلاس سفر بھی اپنے دوست کی دعوت پر مفت کیا تھا۔
ان پر نئے سرے سے تنقید کا آغاز گزشتہ ہفتے ہوا تھا جب میڈیا پر یہ رپورٹیں سامنے آئی تھیں کہ انہوں نے اپنی دوست گیرکنز کی اہلیہ سے خصوصی شرائط پر پانچ لاکھ یورو کے قرض کے معاملے میں مقامی قانون سازوں کو دھوکے میں رکھا۔
جرمن صدر نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا، تاہم کہا تھا کہ پارلیمانی سماعتوں، گیرکنز کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات میں ان کی جانب سے اس قرض کو ظاہر نہ کرنا ایک غلطی تھی۔
میڈیا پر ان رپورٹوں کے سامنے آنے کے بعد اپوزیشن رہنماؤں نے کرسٹیان وولف سے عہدہ صدارت چھوڑنے کے مطالبات کرنا شروع کر دیے تھے، تاہم وولف کا کہنا ہے کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: عابد حسین