وٹہ سٹہ: کامیاب شادی کی کنجی یا ازداوجی بندھن پر لٹکتی تلوار
30 جولائی 2012انتہائی خوبصورت مگر اداس آنکھوں والی 17 سالہ شمائلہ کا تعلق سندھ کے ایک دیہی علاقے سے ہے۔ وہ کراچی کے ایک پوش علاقے کے چند گھروں میں اپنی والدہ کے ساتھ کام کرتی ہے۔ شمائلہ کے بقول کم عمری کی شادی کے باوجود وہ بہت خوش تھی۔ لیکن یہ خوشی زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ شمائلہ کے بھائی اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑوں کے بعد اس کی بھابی اپنے والدین کے گھر واپس پہنچ گئی۔
اس کی بھابھی کا یوں جھگڑ کر میکے آنا گویا شمائلہ کی زندگی میں بھی زہر گھول گیا۔ میاں بیوی کے درمیان خوشگوار تعلقات کے باجود شمائلہ کو زبردستی اس کے والدین کے گھر بھیج دیا گیا۔
اب وہ گزشتہ دو برس سے آنکھوں میں انتظار کے سپنے سجائے پیا گھر لوٹنے کی منتظر ہے۔ وہ ہر وقت دعا کرتی ہے کہ دونوں خاندانوں کے تعلقات کسی طرح بحال ہوں تو وہ اپنے گھر واپس جا سکے۔
یہ مسئلہ صرف شمائلہ کا ہی نہیں بلکہ ایسی بہت سی خواتین کا بھی ہے جو برسوں سے وٹے سٹے یا ادلے بدلے کے رشتے میں باندھی جا رہی ہیں۔ یہ رسم محض دیہات تک محدود نہیں ہے، بلکہ شہروں میں بسنے والے بعض روایتی گھرانے بھی ایسی شادیوں کو کامیاب ازدواجی زندگی کی گارنٹی سمجھتے ہیں۔
ماہرین عمرانیات کے اندازے کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں میں ہونے والی ستر سے اسی فیصد شادیاں وٹہ سٹہ کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ آج بھی معاشرے میں عورت کو جائداد کی طرح سمجھا جانا ہے۔
کراچی یونیورسٹی میں شعبہ عمرانیات کے پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد برفت کہتے ہیں کہ وٹہ سٹہ کی شادیوں کے رواج کے باعث بہت سے معاشرتی، سماجی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اپنی ذات یا برادری میں ہی شادی کرنے کی غرض سے اکثر فیصلے خواتین کی مرضی کے خلاف ہوتے ہیں۔ پروفیسر برفت کے مطابق وٹہ سٹہ کے تحت ہونے والی شادیاں اکثر انتہائی بے جوڑ ہوتی ہیں، ’’ وٹہ سٹہ کے تحت لڑکیوں کا رشتہ طے کرتے وقت نہ تو لڑکوں کی عمر دیکھی جاتی ہے، نہ تعلیم اور نہ ہی روزگار۔ بعض اوقات نہایت کم عمر لڑکیوں کی عمر رسیدہ مردوں سے شادیاں بھی طے پا جاتی ہیں جن میں ان کی مرضی شامل نہیں ہوتی۔ اور اگر لڑکیاں انکار کرنا چاہیں تو خاندان کی عزت کا مسلئہ بن جاتا ہے۔اسی باعث چودہ سے پندرہ برس کی لڑکیاں چالیس یا اس سے بھی زیادہ عمر کے مردوں سے بیاہ دی جاتی ہیں۔‘‘
وٹے سٹے کی ایسی شادیوں کے لیے اکثر اوقات شیرخوار بچوں کے رشتے بھی طے کر دیے جاتے ہیں۔ پروفیسر برفت کے مطابق ایسے معاشرے میں جہاں لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اس کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کر دیا جائے کہ اسے کس کے ساتھ بیاہنا ہے، کئی مسائل پیدا کرتا ہے، ’’ ہمارے معاشرے میں بچی کے پیدا ہونے سے قبل یہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ اس کی کس گھر میں شادی کی جائے گی اور کہا جاتا ہے کہ ہم نے زبان دے دی ہے۔ جو بھی ہو گا زبان سے نہیں پھریں گے۔ اگر وہی بچی بڑی ہو کر اس جگہ شادی سے انکار کر دے تو بات قتل تک بھی جا پہنچتی ہے جو کہ افسوسناک امر ہے۔‘‘
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر مہناز رحمان کے بقول وٹے سٹے کی شادیوں میں بچیوں کی بجائے والدین اپنا مفاد سامنے رکھتے ہیں،’’ہمارے معاشرے میں شادی بذات خود ایک مسئلہ ہے اور اس کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں۔ میں اس میں بڑھتی ہوئی مادیت پرستی کو ذمہ دار ٹہراؤں گی ۔ لوگ اپنی لڑکیوں کے لیے تو بہت اچھا چاہتے ہیں لیکن دوسروں کی لڑکیوں کے لیے اس طرح نہیں سوچتے۔ ہمارے لوگوں میں دوسروں کے لیے خود غرضی کا رویہ زیادہ نظر آتا ہے۔ وٹے سٹے کی شادیوں میں بھی اپنے مفادات سامنے رکھتے ہیں۔‘‘
مہناز رحمان کہتی ہیں کہ اس کا ایک فائدہ لوگوں کو پہلے یہ نظر آتا تھا کہ ایک سکیورٹی مل جاتی تھی کہ شادی چلتی رہے گی، ’’ کیونکہ اگر ایک جوڑے کے تعلقات خراب بھی ہوں تو وہ اس لیے برداشت کرتے چلے جاتے ہیں کہ دوسرے جوڑے کا رشتہ اور خوشیاں بھی برباد نہ ہوں۔ مگر بعض دفعہ اس وجہ سے بہت تکلیف دہ صورت حال بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ ان کے مطابق کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایک خاندان میں شادی ہو کر جانے والی لڑکی خوش نہیں تو دوسرے خاندان میں اس کے بدلے جانے والی لڑکی کو تکلیف یا طعنے دیے جاتے ہیں۔ اگر ایک گھر کی لڑکی اپنے سسرال میں نہ رہنا چاہے تو دوسری کو بھی زبردستی اس کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ اکثر ایسی شادیوں میں ذہنی ہم آہنگی بھی نہیں پائی جاتی۔ یہ صورتحال خصوصا لڑکیوں کے لیے شدید ذہنی اذیت کا باعث بنتی ہے۔‘‘
رپورٹ:عنبرین فاطمہ
ادارت: افسر اعوان