وکلاء کا لانگ مارچ اور سیاسی رابطے
6 مارچ 2009سیاسی غیر یقینی میں ٹھہراؤ لانے اور اس کے مضمرات سے بچاؤ کے لئے وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی، مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی شریف برادران کے ساتھ مسلسل رابطوں میں ہیں۔
دوسری طرف صدر اور وزیر اعظم کے درمیان بھی صلاح مشورے کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعہ کے روز کئی شہروں میں شریف برادران کی حمایت میں تاجروں کی ہڑتال اور 12 مارچ سے شروع ہونے والا وکلاء کا مارچ بھی اعلیٰ سطحی سیاسی رابطوں کا مرکز ہے۔
حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے لئے یہ دونوں امور تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں لیکن اس موقع پر یہ امر واضح ہے کہ صدر آصف زرداری مخصوص تحفظات کے باعث افتخار چوہدری کی بحالی کے موڈ میں نہیں ہیں اس کا اظہار وزیر دفاع احمد مختار نے کچھ اس طرح کیا ہے
’’افتخار محمد چوہدری صاحب بہت اچھے انسان ہیں لیکن انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ صرف ان کی کرسی کے پیچھے پورے پاکستان کو مشکلات درپیش ہیں ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ اسی جگہ پر بیٹھے رہیں گے یا کسی اور جگہ پر ملک کی اس سے بہتر خدمت کریں گے۔‘‘
دوسری طرف نواز شریف اور صدر آصف زرداری کے درمیان اختلافات کا سلسلہ بھی عدلیہ کے وقار اور جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے باعث شروع ہوا۔ نواز شریف آج بھی اپنے بنیادی مطالبے پر قائم ہیں قاضی حسین احمد اور عمران خان بھی ان کے اس مطالبے میں اب ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں اور اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب رہنما ناقابل واپسی مقام تک پہنچ چکے ہیں۔
مبصرین اس خدشے کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ کہیں ناقابل واپسی مقام یعنی ایوان صدر اور مرکزی حکومت کی مصلحتیں اور ضد ملک کے لئے کسی اور طوفان کا پیش خیمہ نہ بن جائیں۔ ان کے خیال میں عوام سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد یعنی جسٹس افتخار چوہدری اور ان کے ساتھیوں کی بحالی گورنر راج کے خاتمے اور گورنر سلمان تاثیر کی سبکدوشی ہی موجودہ صورتحال کی بہتری کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔