1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وکی لیکس: امریکی فوجی پر دشمن کی معاونت کا الزام

3 مارچ 2011

امریکی فوج نے اپنے ایک اہلکار پر وکی لیکس کو خفیہ دستاویزات فراہم کرنے کی پاداش میں ’دشمن کو مدد‘ فراہم کرنے کا الزام عائد کر دیا ہے۔ امریکی قانون میں اس جرم کی سزا موت ہے۔

تصویر: AP

بریڈلی میننگ نامی اس اہلکار پر عائد چارج شیٹ کے مطابق اس نے بالواسطہ ذرائع سے دشمن کو انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں۔ بریڈلی میننگ عراق میں انٹیلی جنس تجزیہ کار کے طور پر ذمہ داریاں انجام دے چکا ہے۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں فوجی ترجمان کیپٹن جان ہیڈرلینڈ نے بتایا کہ نئی چارج شیٹ بریڈلی میننگ کے جرائم کی وسعت کا صحیح طریقے سے احاطہ کرتی ہے۔ فوج کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق میننگ کو سزائے موت دلوانے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس 23 سالہ فوجی کو عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

امریکی فوج کی جانب سے بریڈلی میننگ پر پہلی بار جولائی 2010ء میں 12 الزامات عائد کیے گئے تھے۔ وہ وفاقی اور عسکری قوانین کی خلاف ورزیوں سے متعلق تھے۔ امریکی محکمہء دفاع نے اب تک میننگ اور وکی لیکس کے تعلق کو واضح نہیں کیا۔ تاہم میننگ کے خلاف چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ اس امریکی اہلکار نے غیر قانونی طریقے سے اہم حکومتی معلومات ڈاؤن لوڈ کیں اور پھر انہیں انٹرنیٹ پر عام کیا۔

جولیان اسانجتصویر: AP

وکی لیکس نے خفیہ امریکی سفارتی دستاویزات کو عام کرکے واشنگٹن کو سخت ناراض کر رکھا ہے۔ ان دستاویزات کے عام ہونے سے دنیا بھر میں امریکی سفارتی عملے کی معلومات کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت پر انگلیاں اٹھیں اور اہم بین الاقوامی امور سے متعلق اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی ذاتی رائے بھی عام ہوئی۔

وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج ان دعووں کو مسترد کر چکے ہیں کہ بریڈلی میننگ نے انہیں یہ معلومات فراہم کیں۔ اسانج کے بقول یہ امریکی فوجی ایک ’سیاسی قیدی‘ ہے۔

بریڈلی میننگ کے مقدمے کی سماعت کے لیے تاحال تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ فوجی ذرائع کے مطابق وکلاء صفائی کی درخواست پر بریڈلی میننگ کی ذہنی صحت سے متعلق کرائی گئی انکوائری کے نتائج کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں