1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافتشمالی امریکہ

وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج نے بالآخر آزادی کی سانس لی

26 جون 2024

جولیان اسانج نے امریکہ میں شمالی ماریانا جزائر میں عدالت کا سامنا کیا اور امریکی جاسوسی ایکٹ کی ایک خلاف ورزی کا اعتراف کیا۔ اس کے بعد جج نے انہیں رہا کرنے کا تاریخی فیصلہ سنا دیا۔

جولیان اسانج
معاہدے کے تحت اسانج نے قومی دفاعی دستاویزات حاصل کرنے اور شائع کرنے کے ایک معاملے میں اقبال جرم کیا اور بدلے میں امریکہ نے ان کے خلاف جاسوسی کے 17 دیگر الزامات منسوخ کر دیےتصویر: YUICHI YAMAZAKI/AFP/Getty Images

وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج بدھ کے روز ایک امریکی عدالت میں فوجی راز شائع کرنے کے ایک سنگین جرم میں، اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کے بعد جیل سے رہا ہو گئے۔ اس طرح ایک دہائی سے بھی زیادہ مدت تک چلنے والی ان کی قانونی لڑائی کی کہانی اختتام کو پہنچی۔

امریکہ سے معاہدے کے بعد وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج رہا

جولیان اسانج کو امریکہ میں شمالی ماریانا جزائر کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں جج نے ان سے جب یہ پوچھا کہ آیا وہ جرم قبول کرتے ہیں یا نہیں، تو اسانج نے جواب دیا، ''معلومات کے لیے قصوروار ہوں۔''

جولیان اسانج کو امریکہ حوالگی کے خلاف اپیل کی اجازت مل گئی

اس پر جج نے کہا، ''اس اعلان کے ساتھ، ایسا لگتا ہے کہ آپ اس کمرہ عدالت سے ایک آزاد آدمی کے طور پر باہر نکل سکیں گے۔''

جولیان اسانج کو فوراﹰ ملک بدر نہیں کیا جا سکتا، برطانوی عدالت

ان کی رہائی امریکی محکمہ انصاف کے ساتھ ایک معاہدے کا حصہ ہے، جس میں اعتراف جرم کرنے پر ان کی رہائی کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس طویل کیس کے دوران آزادی صحافت اور قومی سلامتی سے متعلق مختلف طرح کے سوالات بھی اٹھتے رہے۔

جولیان اسانج کی امریکہ حوالگی کا معاملہ، آگے کیا ہو سکتا ہے؟

امریکہ نے اعتراف جرم کے معاہدے کے تحت پیشگی منظوری کے بغیر اسانج پر ملک میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

'جولیان اسانج کا مقدمہ آزادی صحافت کو خطرے میں ڈال رہا ہے'

محکمہ انصاف نے ایک بیان میں کہا، ''اعتراف جرم کے معاہدے کے مطابق اسانج پر اجازت کے بغیر امریکہ دوبارہ واپس آنے پر بھی پابندی ہے۔''

'امریکی آئین میں پہلی ترمیم کو 'سب سے بڑا خطرہ

جب اسانج اپنے ملک آسٹریلیا کے لیے ہوائی جہاز میں سوار ہوئے، تو ان کی قانونی ٹیم نے اس خبر کو خوش آئند قرار دیا۔

امریکی عدالت میں پیش ہونے کے وقت باون سالہ اسانج نے سیاہ سوٹ پہن رکھا تھا، وہ مسکراتے ہوئے اپنی ٹیم اور واشنگٹن میں آسٹریلیا کے سفیر کیون رڈ کے ساتھ سکیورٹی مراحل سے گزرےتصویر: Eugene Hoshiko/AP Photo/picture alliance

وکیل جین رابنسن نے عدالت کے باہر نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا کہ ''آج ایک تاریخی دن ہے۔ اس سے 14 سال سے جاری قانونی لڑائیاں ختم ہوتی ہیں۔''

لندن حکومت نے جولیان اسانج کی امریکہ حوالگی کی منظوری دے دی

ان کا مزید کہنا تھا: ''یہ ایک ایسے معاملے کو بھی ختم کرتا ہے جسے 21 ویں صدی میں پہلی ترمیم (آزادی رآئے سے متعلق امریکی آئین میں ترمیم) کے لیے سب سے بڑا خطرہ تسلیم کیا گیا۔''

 ایکواڈور نے جولیان اسانج کی شہریت منسوخ کر دی

ان کے ایک اور وکیل بیری پولاک نے کہا کہ ''جولیان اسانج کے خلاف جاسوسی ایکٹ کے مقدمے کی گزشتہ 100 سالوں میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ امریکہ نے اس قانون کو مسٹر اسانج جیسے پبلشر، صحافی کا تعاقب کرنے کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا۔''

جو بائیڈن اسانج کو صدارتی معافی دے دیں گے، والد کی امید

آسٹریلوئی وزیر اعظم انتھونی البینی نے اس پر اپنے رد عمل میں کہا کہ بدھ کے روز کی سماعت ایک ''خوش آئند پیش رفت'' ہے۔

معاہدے کی تفصیلات کیا ہیں؟

وکی لیکس نے افغانستان اور عراق کی جنگوں کے ساتھ ہی سفارتی کیبلز سے متعلق قومی سلامتی کی دستاویزات کا ایک ذخیرہ شائع کیا تھا، جس پر امریکہ نے اسانج پر جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی تھی۔

اس معاہدے کے تحت اسانج نے قومی دفاعی دستاویزات حاصل کرنے اور شائع کرنے کے ایک معاملے میں اقبال جرم کیا اور بدلے میں امریکہ نے ان کے خلاف جاسوسی کے 17 دیگر الزامات کو منسوخ کر دیا۔

پیر کے روز برطانیہ کی بیلمارش جیل سے رہا ہونے کے بعد اسانج کو امریکی بحرالکاہل میں واقع شمالی ماریانا کے جزیرے کے علاقے میں عدالت میں پہنچایا گیا۔

اس وقت باون سالہ اسانج نے سیاہ سوٹ پہن رکھا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے اپنی ٹیم اور واشنگٹن میں آسٹریلیا کے سفیر کیون رڈ کے ساتھ سکیورٹی مراحل سے گزرے۔

انہیں اعتراف جرم کے لیے 62 ماہ کی سزا سنائی جانی تھی، جو وہ پہلے ہی برطانیہ کی جیل میں کاٹ چکے ہیں اور اس طرح وہ بالآخر اپنے آبائی ملک آسٹریلیا واپس پہنچ رہے ہیں۔

شمالی ماریانا جزائر میں کیس کی سماعت کیوں ہوئی؟

بحر الکاہل میں واقع شمالی ماریانا جزائر ایک دور دراز امریکی علاقہ ہے جس کی آبادی صرف 51,000 افراد پر مشتمل ہے۔ اسانج کو اسی علاقے کے دارالحکومت سائپان میں عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق اس جگہ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ  ''مدعا علیہ نے براعظم امریکہ کا سفر کرنے کی مخالفت کی تھی اور اس کے ساتھ جزیرہ آسٹریلیا سے قریب ہے'' جہاں سماعت ختم ہونے کے بعد وہ واپس جانا چاہتے تھے۔

اس سماعت کے موقع پر بدھ کے روز دنیا بھر سے رپورٹرز کمرہ عدالت کے باہر جمع ہوئے۔ تاہم پریس کو عدالت کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اسانج کی اہلیہ اسٹیلا نے سوشل میڈیا پر لکھا، ''میں یہ دیکھ کر سوچ رہی ہوں کہ برسوں کی محرومی اور ہائی سکیورٹی بیلمارش جیل کی چار دیواری سے باہر آنے کے بعد پریس کے سامنے اس طرح سے گزرتے ہوئے ان کے حواس کتنے بوجھل ہو رہے ہوں گے۔''

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

’آپ تک سچ پہنچانےکے ليے ہم ہر خطرہ مول ليں گے‘

02:00

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں