1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وہیل چیئر پر جرمنی پہنچنے والی شامی مہاجر لڑکی کی کامیابیاں

انفومائگرینٹس
4 اکتوبر 2018

یوں تو یورپ پہنچنے والے متعدد مہاجرین ایسے ہیں جنہوں نے ایک نئے ملک میں زندگی کا آغاز  بالکل شروع سے کیا اور کامیاب ہوئے۔ تاہم وہیل چیئر پر حلب سے جرمنی پہنچنے والی ایک شامی مہاجر لڑکی کی کہانی سب سے متاثر کُن ہے۔

Nujeen Mustafa syrische Migrantin
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Prautsch

نوجین مصطفیٰ نے تین برس قبل اپنے خاندان کے ہمراہ شام سے یورپ کا سفر اختیار کیا تھا۔ اپنی معذوری کے باوجود اس با ہمت لڑکی نے قریب ڈیڑھ سال کے عرصے میں سولہ ممالک سے گزر کر جرمنی تک کا یہ سفر طے کیا۔

انیس سالہ نوجین مطفیٰ نے مہاجرین کے بارے میں خبریں فراہم کرنے والے یورپی ادارے انفو مائیگرنٹس سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ یہ سب کچھ آسان نہیں تھا لیکن شام چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ یہ ایک نئی زندگی اور بہتر مستقبل حاصل کرنے کا ایک موقع تھا۔‘‘

نوجین دوسرے مہاجرین کی طرح جسمانی طور پر مکمل نہیں ہیں۔ وہ اپنی پیدائش سے ہی پیروں سے معذور تھیں۔ مصطفیٰ کا شمار ایسے چند تارکین وطن میں ہوتا ہے جنہوں نے وہیل چیئر پر مہاجرت کا سفر اختیار کیا۔ اضافی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود نوجین مصطفی یورپ میں ایک نئی زندگی کے آغاز کے لیے بہت شکر گزار ہیں۔

لیکن جرمنی میں بھی نوجین کے لیے سب کچھ بالکل درست نہیں ہے۔ لیکن جرمنی میں محض تین سال کا عرصہ گزارنے کے بعد اُن کی جرمن زبان معیار کے مطابق ہے۔ انگلش بھی انہوں نے انگریزی کے سوپ ڈرامے دیکھ دیکھ کر خود سیکھی ہے۔ جہاں تک سماجی انضمام کا تعلق ہے، نوجین مصطفیٰ اس کی بہترین مثال ہیں۔

تصویر: picture-alliance/PIXSELL/Z. Lukunic

تاہم جرمنی کے کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جو نوجین کے لیے زیادہ پسندیدہ نہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کھانا۔ نوجین کے بقول،’’ جرمن کھانا مصالحے دار نہیں ہے۔ ہاں سویٹ ڈشیں اچھی ہیں۔ میں دسمبر کا انتظار کر رہی ہوں جب میری بے حد پسندیدہ جِنجر (ادرک) بریڈ ملے گی۔‘‘

نوجین جس جسمانی معذوری کا شکار ہیں اس میں وہ اپنے جسم کی حرکت کو قابو نہیں کر پاتیں، خاص طور پر ٹانگوں کی حرکت کو۔ لیکن اپنی اس محرومی کو انہوں نے اپنے خوابوں کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔

'' میں ایک دن شام ضرور جاؤں گی۔ لیکن میں نہیں جانتی کہ آیا میں اسے پہچان پاؤں گی یا وہاں پہنچ کر اپنے آپ کو پہچان سکوں گی۔ میں نے کم عمری میں شام کو چھوڑا تھا۔ اب تو صرف وطن کی یادیں ہی باقی ہیں۔‘‘ نوجین مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ شام سے یورپ کے مشکل سفر نے اُن کی زندگی بدل کے رکھ دی۔

نوجین نے اپنے سفر کو سن 2016 میں شائع ہونے والی اس کتاب میں بیان کیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/S.Prautsch

تاہم یورپ پہنچ کر بھی نوجین اور اُن کے خاندان کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔ انہوں نے یونان سے بلقان روٹ پر مغربی یورپ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ سلووینیا میں مصطفیٰ اور اُن کے خاندان کو کئی ہفتوں کے لیے حراست میں بھی رکھا گیا۔

گزشتہ تین سالوں میں مشکل ترین حالات دیکھنے کے بعد نوجین کو لفظ’مہاجر‘ سے ناگواری محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اب جبکہ وہ جرمنی میں آباد ہو چکی ہیں، وہ صرف اپنے مستقبل پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتی ہیں۔ نوجین خلا نورد بننا چاہتی ہیں۔

ص ح / ع ح 

شامی بچی ویل چیئر پر حلب سے کولون پہنچ گئی

03:13

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں