طالبان سے خوفزدہ ایک لاکھ سے زائد افغان امریکی اتحادی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی اپنے وطن عزیز کو خیرباد کہہ گئے، مزید لاکھوں افغان فرار کے لیے پر تولے ہوئے ہیں لیکن کیا مہاجرت ہی حل ہے؟
اشتہار
افغانستان سے ہجرت کے ہیجان کا دور ابھی تھما نہیں ہے۔ نیٹو فورسز اور امریکی انخلاءکے ساتھ تو افغان باشندوں کی یہ سہولت جڑی تھی کہ وہ اپنے طیارے میں ساتھ بٹھا کر لے جائیں گے، جتنے جا سکتے تھے نکل لیے۔ طالبان اور ان کے سیاسی مخالفین، داعش اور باغی گروہوں کو پیچھے لڑتا چھوڑ کر پورا افغانستان تو امریکی جہازوں میں بیٹھ کر اڑ نہیں سکتا تھا۔
سو اس وقت طیاروں میں بیٹھ کر ہجرت کر جانے والے افغانوں کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہے، پاکستان، ایران اور دیگر ہمسایہ ممالک میں ہجرت کرنے والے افغان بھی اگلے کچھ ماہ میں لاکھوں میں ہو جائیں گے مگر افغانستان میں آزمائش کے مزید دن دیکھنے کے لیے تین کروڑ اور اسّی لاکھ سے زیادہ افغان رہ گئے ہیں۔
کیا آپ نے کابل سے انخلاء کے دوران جاری ہونے والی اس تصویر کو غور سے دیکھا، جس میں فوجی مال بردار جہاز کے فرش پہ چند سو افغان مرد و خواتین بیٹھے ہیں، بہت سوں کی گودوں میں بچے ہیں، لگ بھگ سب ہی جوان اور صحت مند ہیں۔
افغانستان کے معذور ہجرت کی اس دوڑ میں کہاں رہ گئے؟ بیمار بھی کیا مہاجر بننے کا یہ تمغہ حاصل کر پائے؟ ان جوانوں کی بوڑھی مائیں کیا ہوئیں؟ ان کے باپ چچا تایا وہ کہاں ہیں؟
قندھار، کابل، مزار شریف، قندوز، ہرات کی گلیوں میں کھیلتے ان بچوں کا کیا ہو گا، جنہیں کئی دہائیوں کی جنگ نے یتیم ابن یتیم بنایا؟ انہیں تو ساتھ لے جانے والا کوئی نہ ملا۔ خواتین کی آرائش کے مراکز میں کام کرنے والی بیوٹیشن لڑکیوں نے تو انخلاء کا کوئی پلان نہیں بنایا تھا، وہ کہاں جائیں گی؟
وہ جو کابل ائیرپورٹ کے باہر سفری بیگ میں پوری زندگی اپنے کاندھے پہ لادے نظر آ رہے تھے وہ تو جوان ہیں، ان میں کئی ہیں، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بہت سے ہیں جنہیں کوئی نہ کوئی ہنر آتا ہے، جنہوں نے افغانستان سے باہر کی دنیا میں کوئی نہ کوئی رابطہ بنا رکھا ہے، جنہیں موہوم سی امید ہے کہ پناہ ملی تو کچھ نہ کچھ کرہی لیں گے۔
اپنا محبوب وطن چھوڑنے کا دکھ
01:41
کوئٹہ کے امام بارگاہوں میں افغانستان سے آکر اترنے والے ہزارہ برادری کے چند درجن قافلوں کی گنتی بھی ممکن ہے، وہ ہزارہ جو پیچھے رہ گئے وہ لاکھوں میں ہیں۔ان پیچھے رہ جانے والوں کی تقریبا چار کروڑ کہانیاں ہیں، یہ کہانیاں اب کون سنائے گا؟
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ، مہاجرین کی بحالی، فوڈ پروگرام یا ہیلتھ آرگنائزئشن کا ترجیحی آپریشن مہاجرین ہوں گے، افغانستان کی غیر یقینی سیاسی اور سیکورٹی صورتحال کو بنیاد بناکر افغانستان میں رہ جانے والوں کے نظر انداز ہو جانے کا ڈر ہے۔
اگست سے پہلے تک امریکی اور نیٹو افواج تھیں، اقوام متحدہ کے ادارے بھی فعال تھے، غیر سرکاری ادارے بھی تھے، اپنی سفارتی اور سیاسی غرض سے بھارت بھی موجود تھا، یوں ڈالر کی آمد کا پہیہ چل رہا تھا، خوشحالی تو خیر کیا ہی تھی مگر زندگی ایک ڈگر پہ چل پڑی تھی۔اب اس معاشی خلاء کو کون پر کرے گا؟
پیٹ کی بھوک تو بڑی خطرناک ہوتی ہے یہ نہ طالبان دیکھتی ہے نہ داعش۔ ان افغانوں کی فوڈ سیکورٹی کا کیا پلان ہو گا ؟ بعض طالبان پسندوں سے گزارش ہے کہ اسلام کے ابتدائی ادوار سے موجودہ افغانستان کا موزانہ نہ کیجے، حاملہ عورت پیٹ پہ پتھر باندھ کر خندق نہیں کھود سکتی، نوزائیدہ کو سوکھی روٹی نہیں کھلائی جا سکتی، بڑھتے بچوں کو نان پہ پیاز توڑ کر دینے والا رومانس بھی بس مجاہدین کی کہانیوں میں سنو تو تھرلر لگتا ہے۔
وہ جو کرپٹ افغان حکومت اور عالمی این جی اوز کے تحت اسکول بنے تھے اب ان کو کون چلائے گا، استاد کیا پڑھائے گا، اسے تنخواہ کون دے گا، اعلیٰ تعلیمی اداروں کی شکل کیا ہوگی؟ ہجرت کرجانے والے کئی سو اساتذہ اور محقیقین کی جگہ کون لے گا؟
بیماری بھی کسی طالب کے جھڑکنے سے نہیں جائے گی، شفاخانوں کا نظام چلانے کے لیے طبی عملے، ڈاکٹرز ، آلات اور ادویات کی ضرورت ہو گی یہ وہ ضرورت ہے جو بغیر کسی عالمی امداد کے پوری کرنا ممکن نہیں۔ زچہ بچہ صحت مراکز کی بحالی بھی فوری ہونے والے کاموں میں سے ایک ہے۔
لوٹ مار سے بچانے کے لیے طالبان کابل میں
افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر تاجکستان چلے گئے جس کے بعد طالبان افغانستان دارالحکومت کابل میں داخل ہو گئے۔ کابل اور افغانستان میں ہونے والی تازہ پیشرفت جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: AFP/Getty Images
طالبان کابل کے صدارتی محل میں داخل
طالبان کے کابل میں موجود دو سینیئر کمانڈرز کے مطابق طالبان افغان صدارتی محل میں داخل ہو گئے ہیں اور اس کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ تاہم افغان حکومت کی طرف سے ابھی اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔
تصویر: REUTERS
اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے کونسل قائم
افغانستان میں اقتدار کی پرامن منتقلی کو ممکن بنانے کے لیے افغان رہنماؤں کی ایک کونسل قائم کر دی گئی ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ اس کونسل کی سربراہی کرنے والوں میں ان کے ساتھ اعلی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے چیف گلبدبین حکمت یار شامل ہیں۔
تصویر: Mariam Zuhaib/AP Photo/picture alliance
کابل کے ایئر پورٹ پر آتشزدگی کی اطلاعات
افغان دارالحکومت میں قائم امریکی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر خبردار کیا گیا ہے کہ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر آتشزدگی کی طلاعات ہیں، اس لیے امریکی شہری محفوظ مقامات پر ہی رہیں۔ اطلاعات ہیں کہ امریکی فورسز نے کابل میں عبوری سفیر کو ہوائی اڈے پہنچا دیا ہے جبکہ امریکی سفارت خانے سے امریکی پرچم اتار دیا گیا ہے۔
تصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance
لوٹ مار کے پیش نظر طالبان جنگجو کابل میں داخل
طالبان کے ذرائع کے مطابق کابل میں لوٹ مار کے خطرے کے پیش نظر جنگجوؤں کو دارالحکومت کابل میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ طالبان کے ترجمان کے مطابق پولیس کی طرف سے اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
تصویر: Hamed Sarfarazi/AP/picture alliance
اشرف غنی تاجکستان چلے گئے
طالبان کی طرف سے کابل کے محاصرے کے چند گھنٹوں بعد افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر تاجکستان چلے گئے۔ قبل ازیں صدر غنی کے دفتر نے البتہ کہا کہ صدر کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ وہ کہاں ہیں۔
تصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance
کابل میں جرمن سفارت خانہ بند
جرمنی نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نیٹو کے مطابق وہ صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور کابل میں سفارتی موجودگی قائم رکھنے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: Can Merey/dpa/picture-alliance
طالبان قیادت کا اپنے جنگجوؤں کے نام پیغام
دوحہ میں ایک طالبان رہنما نے بتایا کہ طالبان قیادت نے دارالحکومت میں داخل ہونے والے اپنے جنگجوؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ تشدد سے گریز کریں، جو کسی دوسری جگہ جانے کے لیے محفوظ راستہ طلب کرے، اسے جانے دیا جائے اور خواتین کو محفوظ مقامات تک جانے کی اجازت دی جائے۔
تصویر: Hamed Sarfarazi/AP Photo/picture alliance
لوگوں کی زندگیاں اور املاک محفوظ ہیں، طالبان ترجمان
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم لوگوں کو یقین دلاتے ہیں، خاص طور پر کابل میں کہ ان کی املاک اور زندگیاں محفوظ ہیں۔‘‘ سہیل شاہین کے مطابق خواتین اپنی تعلیم اور دیگر سرگرمیاں بدستور جاری رکھ سکیں گی، تاہم اسکارف کی پابندی کرنا ہو گی۔
تصویر: Paula Bronstein/Getty Images
سفارتی عملے کا انخلا
افغان دارالحکومت کابل میں امریکی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ میں ہیلی کاپٹر لینڈ کرتے دیکھے گئے جبکہ عملہ خصوصی گاڑیوں کے ذریعے سفارت خانے سے نکلا۔ سفارت خانے سے دھواں اٹھتا بھی دیکھا گیا۔ اس سے پہلے امریکی حکام نے کہا تھا کہ حساس مواد جلانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance
بگرام ایئربیس پر طالبان کا قبضہ
افغان فورسز نے مشہور زمانہ بگرام ایئربیس کا کنٹرول طالبان کے حوالے کر دیا ہے۔ بگرام کے ضلعی سربراہ درویش رؤفی کے مطابق وہاں تقریباﹰ پانچ ہزار قیدی موجود ہیں۔ امریکا کے اس سابق ایئربیس کی جیل میں زیادہ تر طالبان اور داعش سے تعلق رکھنے والے جنگجو قید تھے۔
تصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance
طورخم بارڈ کا کنٹرول طالبان کے پاس
کابل میں داخل ہونے سے قبل طالبان نے طورخم بارڈر کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔ پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق اس بارڈر پر تمام آمد و رفت معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Reuters
11 تصاویر1 | 11
چلو مان لیا کہ اب امریکا کی واپسی سے طالبان امریکا آنکھ مچولی ختم ہو گی، امن و امان کی صورتحال طالبان سنبھالیں گے، پولیسنگ کا نظام بہتر ہو گا، جرائم پر سخت اور فوری شرعی سزائیں ملیں گی، کرپشن یہ ہونے نہیں دیں گے اوربے جا ظلم زیادتی نہ کرنے کا وعدہ دے رہے ہیں مگر زندگی گزارنے کے بنیادی لوازمات کیسے پورے ہوں گے۔ یہ سوال تین کروڑ سے زائد افغانوں کے ماتھے پہ لکھا ہے۔
اتنی یقین دہانیوں کے بعد چلیں ٹھیک ہے مان لیا کہ طالبان بدل گئے۔ بربریت کے دن اب لوٹ کر نہیں آئیں گے مگر کیا گارنٹی ہے کہ سیاسی عدم استحکام میں ڈولتا افغانستان مستقبل قریب میں سنبھل پائے گا؟
کیا عالمی طاقتیں طالبان کی طاقت توڑنے کے لیے ان کی صفوں میں گروہ بندی نہیں کرائیں گی؟ افغان عوام کو اندرونی سیاسی خلفشار سے نجات ملے گی؟ کیا دیگر ممالک کی انتہاپسند تنظیموں کے لیے افغانستان آسان پناہ گاہ تو نہیں ہوگا؟
جب تک کہ طالبان ایک مضبوط حکومت چلا نہیں لیتے، افغانستان ایک خود مختار ریاست بن نہیں جاتا، معاشی طور پر استحکام آ نہیں جاتا،ان تمام بے یقینی سے لبریز سوالوں کو جواب مل نہیں جاتا افغانستان میں بسنے بلکہ یوں کہیں کہ پیچھے رہ جانے والے افغان یونہی سرحدی کراسنگ اور اڑتے جہازوں کو امید کی نگاہوں سے دیکھتے رہیں گے، اور کہانیاں بنتی رہیں گی۔
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔