وہ تاریخ ساز دن جب جرمن میڈیا خود ہی خبر بن گیا تھا
16 اگست 2018ٹھیک تیس برس قبل آج ہی کے دن یعنی سولہ اگست کو جرمن شہر گلاڈبَیک میں دو ڈاکوؤں نے ایک بینک لوٹا تھا اور فرار ہوتے ہوئے دو افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔ بتیس سالہ ڈیٹر ڈیگووِسکی اور اکتیس سالہ ہانس ژُرگن روزنر کو تب شاید یہ علم نہ تھا کہ جرمن میڈیا ان کے اس جرم کی کوریج کس طرح بڑھا چڑھا کر کرے گا۔
جدید جرمنی کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا، جب ٹیلی وژن چینلز نے اس مجرمانہ کارروائی کو براہ راست نشر بھی کیا تھا۔ اس میڈیا کوریج نے جرمنوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی کے نتیجے میں رپورٹنگ کے قواعد و ضوابط بہتر بنانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
اس واقعے کی رپورٹنگ میں صحافیوں نے ڈاکوؤں کے انٹرویوز بھی کیے اور یوں پولیس کی کارروائی متاثر ہوئی۔ ناظرین ٹیلی وژن کی اسکرینوں پر دیکھ سکتے تھے کہ ان ڈاکوؤں نے دو افراد کو کس طرح یرغمال بنایا تھا اور اپنے جرم پر کیا ردعمل ظاہر کیا تھا۔
تب فوٹو جرنلسٹس نے بھی بہتر سے بہتر تصاویر بنانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ ایسی تصاویر بھی شائع ہوئیں، جن میں گینگسٹرز نے یرغمالیوں کے سینوں پر پستول تان رکھی تھی۔
ریڈیو رپورٹرز نے ان مجرموں کو مائیکروفون تھما دیے تھے اور انہوں نے بغیر کسی روک ٹوک کے سامعین تک اپنا پیغام بھی پہنچایا تھا۔ یہاں تک کہ ایک گینگسٹر نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ’اب صرف میڈیا کے ذریعے ہی بات چیت کی جائے گی‘۔ اُس وقت جرمن سامعین، ناظرین اور قارئین اس مجرمانہ کارروائی کا براہ راستہ مشاہدہ کر رہے تھے۔
جب یہ مجرمانہ کارروائی اختتام کو پہنچی تو دونوں یرغمالی ہلاک ہو چکے تھے۔ جرمن عوام سکتے میں تھے اور میڈیا رپورٹنگ میں مصروف تھا۔ پھر یہ سوال ابھرا کہ کیا اس صورتحال کا ذمہ دار میڈیا بنا؟
میڈیا سائیکالوجسٹ جو گروبل کے مطابق اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں نے نہ صرف گینگسٹرز کی مشہور ہونے کی خواہش کی تکمیل کی بلکہ انہوں نے ان مجرموں کے جنون کو بھی تقویت بخشی اور ایک طرح سے انہیں ایسا کرنے پر اکسایا بھی۔
جرمنی میں صحافیوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم DJV کے سربراہ میشائل کونکن نے گلاڈبَیک میں سن 1988 میں رونما ہونے والے اس جرم کی میڈیا کوریج کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’’دوسری عالمی جنگ کے بعد کے جرمنی میں یہ صحافت کا سیاہ ترین باب تھا‘۔
اس میڈیا کوریج کے بعد جرمنی میں قومی پریس کونسل نے کئی قواعد و ضوابط متعارف کرائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کی رپورٹنگ نہ کی جا سکے۔ آج کل جرمنی میں یہ بات خلاف قانون ہے کہ کسی ایسے شخص کا انٹرویو کیا جائے، جس نے کسی کو یرغمال بنا رکھا ہو۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے