وہ جرمن شہر، جہاں مہاجرین کو گھر بھی ملتا ہے اور روزگار بھی
شمشیر حیدر Stefan Dege
25 جون 2017
فہد العزاوی اپنے نئے گھر میں کافی خوش ہے، اسے حال ہی میں یہ گھر کرائے پر ملا ہے۔ یہاں سے چالیس کلومیٹر دو ڈورٹمنڈ میں اس کے دوست ابھی تک مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔
اشتہار
اٹھائیس سالہ العزاوی عراقی شہر موصل میں ڈاکٹر تھا لیکن داعش کے جنگجوؤں کے قبضے کے بعد وہ ہجرت کر کے جرمنی پہنچ گیا۔ مہاجر کے طور پر کہیں بھی نئی زندگی شروع کرنا آسان نہیں ہے۔ اس نے جرمن تو سیکھ لی، اب وہ یہاں مزید پڑھائی کر رہا ہے تاکہ وہ جرمنی میں بھی بطور ڈاکٹر کام کر سکے۔ لیکن مہاجر کیمپ میں رہتے ہوئے پڑھائی کرنا اس کے لیے کافی مشکل تھا۔ لیکن جرمن شہر آلٹینا میں اس کا نیا گھر، نئی زندگی کے اس کے خواب کی تکمیل کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
آلٹینا میں العزاوی کے علاوہ شام، عراق، افغانستان اور اریٹریا جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے چار سو کے قریب مہاجرین رہ رہے ہیں۔
صرف کچھ برسوں پہلے آلٹینا کو جرمنی میں ’تیزی سےسکڑتا ہوا شہر‘ قرار دیا گیا تھا، بڑی کمپنیوں نے اس شہر سے نکلنا شروع کر دیا تھا اور روزگار کے مواقع ناپید ہو رہے تھے۔ سن 1970 کے بعد سے ہر تیسرا شہری آلٹینا سے رخصت ہو رہا تھا جس کے باعث سینکڑوں مکان خالی پڑے تھے۔
مہاجریں کی رضاکارانہ واپسی میں رہنمائی کے لیے نئی ویب سائٹ
02:45
لیکن پھر اس شہر کے مقامی حکام نے شہر کی ازسرنو ترتیب و تعمیر کا منصوبہ بنایا اور دو سال قبل جب جرمنی میں مہاجرین کی آمد میں تیزی سے اضافہ ہوا تو آلٹینا کے میئر کا یہ اعلان خبروں کی زینت بنا کہ یہ شہر تفویض کردہ مہاجرین کی تعداد سے ایک سو زیادہ تارکین وطن کو رکھنے کے لیے تیار ہے۔
العزاوی اور اس جیسے سینکڑوں تارکین وطن کو شہر کے مختلف حصوں میں آباد کیا گیا ہے۔ ان کی رہائش گاہوں میں تمام سہولیات دستیاب ہیں۔ اس شہر میں مہاجرین بھی عام شہریوں کی طرح ہی رہتے ہیں اور مقامی رہائشی ان کی تمام ممکن معاونت کرتے ہیں۔
شہر کے میئر آندریاس ہولسٹائن کا کہنا ہے کہ ہر مہاجر خاندان کی مدد اور معاونت کے لیے ایک مقامی خاندان کی ذمہ داری لگائی گئی ہے۔ مقامی رضاکار ان مہاجرین کو جرمن زبان بھی سکھاتے ہیں اور انہیں ملازمتیں تلاش کرنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔
اس شہر کے مرکز میں ایک مصروف شاہراہ پر کچھ مہاجرین اور مقامی افراد ایک عمارت کی تزیئن و آرائش میں مصروف ہیں۔ کسی زمانے میں یہ اس بلڈنگ میں ایک بار تھا لیکن تعمیر نو کے بعد اسے مہاجرین کے لیے مختص کر دیا جائے گا جہاں وہ آپس میں اور مقامی افراد کے ساتھ ملاقات کر سکیں گے۔
مہاجرین کو روزگار مہیا کرنے کے لیے مقامی افراد ان کی تعلیم اور دیگر متعلقہ معلومات جمع کرتے ہیں۔ شہر کے میئر آجروں کے ساتھ ان معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور مہاجرین کو بھی مختلف نوکریوں کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔
اس شہر کو اس برس مہاجرین کے سماجی انضمام کی کوششوں کے صلے میں ’قومی انعام برائے انضمام‘ دیا گیا ہے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔