1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وہ حکومتی کان، جو ظرف سماعت سے ہی محروم ہیں

18 ستمبر 2023

پاکستان میں متوسط طبقے کی آمدن اور خرچ کا تناسب پہلے بھی کہاں قابو میں تھا؟ وسائل کی چادر ضرورتوں کو ڈھانپنے سے ہمیشہ قاصر ہی رہی لیکن چار و نا چار گزر بسر ہو ہی رہی تھی۔

آمنہ سویرا، بلاگرتصویر: Privat

گزشتہ ڈیڑھ برس کے عرصہ میں منہگائی کے عفریت نے، جس طرح عام آدمی کو دبوچا ہے، اس پر اتنا کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے کہ مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہی کہاں ہے۔ بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں دیکھتے ہی دیکھتے کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے لیکن ذرائع آمدن ہیں کہ سکڑتے جا رہے ہیں۔

معاشی مسائل نے زندگی کو پھیکا اور بے سکون کر دیا ہے۔ بے یقینی کی ایسی فضا ہے کہ، کل کی فکر میں دستیاب وسائل کو استعمال کرتے بھی ہاتھ رک جاتا ہے۔ جب زندگی کو رواں رکھنا ہی ایک جد و جہد بن جائے تو سکون اور راحت کے معنی بدل جاتے ہیں۔

ہر دو ہفتے بعد پٹرول کی قیمت میں ہونے والے بڑے اضافے سے اشیائے صرف کی قیمتوں پہ آتے اثر کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ جب بظاہر معقول آمدن والے خاندانوں کے دستیاب وسائل کا منہگائی سے تقابل کیا جائے تو بنیادی ضرورتوں کو محض پورا کرنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے۔ آسائشوں کا ذکر ہی کیا، صورت حال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ خواراک، تعلیم ، صحت و صفائی جیسے ترجیحی اخراجات پر بھی سمجھوتہ نا گزیر ہو چکا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز کی بھر مار ہے کہ جہاں منہگائی سے نڈھال شہری کپکپاتی آوازوں اور بھیگی آنکھوں سے اپنی بپتا، ان کانوں کو سنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ظرف سماعت سے محروم ہیں۔

پاکستان کے روتے ہوئے مرد کو دلاسے کی ضرورت ہے!

 تمام موجودہ سیاسی پارٹیوں میں کسی کے پاس بھی اس ہوش ربا منہگائی، بے روز گاری، تعلیمی مسائل، منہگے علاج اور ٹیکسوں میں اس قدر اضافے سے بچنے کا کوئی ممکنہ حل موجود نہیں، جس کی بدولت مایوسی کی ایک ایسی فضا قائم ہو گئی ہے کہ فی الوقت جس سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ نظر نہیں آتا۔

اس سال ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت منہگائی کی شرح میں 27.38 اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق آنے والے دنوں میں پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے، جس کا اثر براہ راست ضرورت کی تقریباً ہر شے کی قیمت پر پڑے گا۔

ملک کے بیشتر خاندان انہی مسائل سے دو چار ہیں اور اس کا براہ راست اثر ان خواتین پر پڑ رہا ہے، جنہیں محدود آمدن کے ساتھ اپنے خاندان کی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی جنگ کا سامنا ہے۔ ایک عورت کی گھریلو زندگی کا مطلب اپنے آپ کو روزانہ ہزاروں معمولی مسائل پر قربان کرنا ہے۔ پدر سری روایات کی ماری ہوئی عورتیں اپنی مشکل کہیں بھی تو کس سے، بچت کریں بھی تو کیسے؟

سکولوں کی فیس میں ہر کچھ عرصے بعد اضافہ ہو رہا ہے، سکول بس کے کرائے ایک سال میں دو گنا ہو چکے ہیں، بنیادی غذائی ضروریات کو پورا کرنے والی اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، تو ایسے میں معیار زندگی کو کیسے بر قرار رکھا جائے؟

رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے پوری کر دی ہے۔ میدانی علاقوں میں جھلسا دینے والی گرمی اور شدید حبس آلود موسم میں چند گھنٹے کی نیند کے لیے جو سارا خاندان ایک ایئر کنڈیشنر پر انحصار کرتا تھا، اسے چلائے رکھنا بھی اب ممکن نہیں رہا۔

تعلیم، خواراک اور صحت پر ہونے والے ماہانہ اخراجات میں ترجیح قائم کرنے کا مشکل فیصلہ گھر کی چار دیواری میں رہنے والی اس عورت کی ذمہ داری ہے، جس کے لیے پہلے بھی کوئی جائے پناہ نہیں تھی اور کل ان ضروری اخراجات سے کٹوتیوں کے دور رس اثرات کا سامنا بھی اسے ہی کرنا ہے۔

کسی نے شاید ہی محسوس کیا ہو کہ منہگائی کے اس طوفان نے گھریلو خواتین کو سماجی تنہائی کا شکار بنا دیا ہے۔ افراد خانہ کی ضروریات کی فکر میں گھلتی عورت کے پاس نہ وقت بچتا ہے اور نہ ہی وسائل، کہ وہ خود پر کچھ خرچ کر سکے۔ دوستوں رشتہ داروں سے میل جول، ذاتی ضروریات کی فکر یا صحت کا خیال، کچھ بھی ممکن نہیں۔

دوسری طرف معیار زندگی کو بر قرار رکھنا ایک ایسا تکلیف دہ دباؤ ہے کہ جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس سب کا نتیجہ ہر وقت کے ایک ایک غیر محسوس اضطراب اور ڈپریشن کی شکل میں نکل رہا ہے۔ اخراجات کے دباؤ کا ہی سبب ہے کہ سکون کی نیند بھی میسر نہیں ہوتی اور ہمہ وقت دل وسوسوں میں گھرا رہتا ہے۔

معیشت اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے والے دماغ اس صورت حال کو سمجھنے اور سلجھانے کی کوششیں ضرور کر رہے ہوں گے لیکن اب کوئی حرف تسلی کار گر نہیں ہے۔ اس منہگائی اور غذائی بحران نے کتنے افراد کے دلوں سے خوشیاں اور ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھین لی ہیں، شاید ہی انھیں دکھائی دیتا ہو۔

منہگائی کی اس خوف ناک اور دہشت ناک صورت حال کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام کن حالات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔ وہ عورت جو گھر بیٹھ کر کھانے کے طعنے بھی سنتی ہے اور حالات کے جبر کی سب سے زیادہ شکار بھی ہے، اب کسی مسیحا کی منتظر بھی نہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ ارباب اختیار اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیں، اس تنگی سے نبرد آزما ہونے کی کوئی سبیل، کوئی راستہ دکھائیں کہ صورت حال بہت خراب ہو چکی ہے۔ سارا ملک پریشان ہے۔ سر جوڑ کر بیٹھیں، کوئی صائب حل نکالیں اور عام آدمی کی مشکلات میں کمی لائیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں