1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وہ قبرستان ، جہاں صرف ’کاریوں‘ کی کہانیاں دفن ہیں

رابعہ بگٹی سارا گل، ڈی ڈبلیو
9 نومبر 2025

پاکستان کے صوبہ سندھ میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی لڑکیوں کا ایک گمنام قبرستان ہے، جہاں نے قبروں پر کتبے نصب کیے جاتے ہیں نا پھول ڈالنے کوئی رشتے دار آتا ہے۔

پاکستان، سندھ میں ’کاریوں‘ کے قبرستان میں موجود ایک قبر۔
اس قبرستان میں چند ہی قبروں کے گرد کچھ اینٹیں رکھی گئی ہیں۔ یہ ان میں سے ایک قبر ہے۔تصویر: Sara Gill/DW

پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر گھوٹکی سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک چھوٹا سا گاؤں فتو شاہ واقع ہے۔ گھوٹکی سے فتوشاہ کا یہ سفر عائشہ دھاریجو نے ان گنت بار طے کیا ہے۔ شہر سے یہاں جانے والی سڑک ارد گرد کپاس کے کھیتوں کی وجہ سے بہت تنگ ہے۔

عائشہ گزشتہ 15 سالوں سے اس پر تحقیق کر رہی ہے کہ مقامی لوگ ایک خالی سنسان جگہ کو آخر 'بے عزت عورتوں کا قبرستان‘ کیوں کہتے ہیں۔ دھاریجو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہر قبر ایک عورت کی کہانی کو ظاہر کرتی ہے جسے خاموش کر دیا گیا ہے۔‘‘

دھاریجو بتاتی ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والا انسان چاہیے عورت ہو یا مرد، اس معاشرے میں زندگی تو کیا اسے موت بھی عزت سے نہیں دی جاتی۔ ان کی لاشوں کو نہ نہلایا جاتا ہے اور نہ ہی تدفین کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ کوئی آخری رسومات کا تردد تک نہیں کرتا۔ مقتولین کو گڑھوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور جانوروں کو لاشوں سے دور رکھنے کے لیے ان مردہ جسموں کو مٹی سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کر دی جانے والی ان خواتین کی تدفین کی جگہ پر کوئی باقاعدہ قبر ہے اور نہ ہی کوئی نام۔ کچھ 'قبروں‘ پر زمین میں دھنسی ہوئی ٹوٹی ہوئی اینٹوں کے باقیات موجود ہیں۔ لیکن زیادہ تر پر یہ اینٹیں بھی نہیں رکھی گئیں۔ یہ ملحقہ مرکزی قبرستان کے بالکل مختلف ہے۔

قریبی گاؤں سے تعلق رکھنے والی مقامی سماجی کارکن زرقا شار ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جو اس موضوع پر بات کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 'کاریوں‘ کا یہ قبرستان ایک صدی سے زیادہ پرانا ہے۔

غیرت، انا یا معاشرتی دباؤ، ایک اور بیٹی عزت کے نام پر قتل

08:58

This browser does not support the video element.

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ علاقہ اب بھی جاگیرداروں اور زمینداروں کا ہے۔ جو عام آدمی کے روزگار، اس کی اجرت اور ذریعہ معاش کو کنٹرول کرتے ہیں۔‘‘

شار نے مزید کہا کہ اس طرح کے نظام میں مقامی رسم و رواج اکثر ریاستی قانون کو کمزور کر دیتے ہیں اور ''غیرت کے نام پر قتل‘‘ جیسے حساس موضوع پر سوال اٹھانا مقامی رہائشیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل

نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مقتولین کے اہل خانہ یا رشتہ داروں کو لگتا ہے کہ مقتول کی وجہ سے معاشرے میں ان کی بدنامی ہوئی ہے یا ان کی وجہ سے انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پاکستان کے کچھ دیہی علاقوں میں خواتین اور مردوں کو اپنے شریک حیات کا انتخاب کرنے، مخالف جنس کے کسی فرد سے بات کرنے، اپنی ذات یا مذہب سے باہر شادی کرنے یا سماجی اور ثقافتی طور پر کوئی بھی ایسا عمل کرنے جسے وہ غیر اخلاقی سمجھتے ہوں، اس طرح کے سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں پاکستان بھر میں کم از کم 405 افراد کو ''غیرت کے نام پر قتل‘‘ کیا گیا، جن میں سندھ اور پنجاب میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

سرکاری اعداد و شمار سالہا سال سے کم و بیش ایک جیسے ہی رہے ہیں تاہم محققین نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے جرائم اکثر کم رپورٹ کیے جاتے ہیں اور حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

دھاریجو نے کہا کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کا ''روایت‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی ایک مصمم حقیقت ہے کہ یہ قتل طویل عرصے سے جاری ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا، '’خاندانوں اور قبائلی جرگوں کے درمیان مذاکرات میں خواتین کی لاشیں کرنسی بن جاتی ہیں۔ جن میں قتل اکثر جائیداد کے تنازعات کو چھپا دیتا ہے یا خون کے بدلے خون کے نظام کو فعال کرتا ہے۔‘‘

سندھ، پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل خواتین کا قبرستان۔تصویر: Kiran Mirza/DW

'اس نے میرے چلنے کی صلاحیت چھین لی'

ان خواتین میں سے صوبیہ بتول شاہ بھی ہیں۔ جب ان کی عمر 22 سال تھی تو ایک روز ان کے والد چھ دیگر مرد رشتہ داروں سمیت ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ باپ نے اپنی بیٹی پر شوہر سے طلاق مانگ کر خاندان کی عزت خاک میں ملانے کا الزام لگایا۔ ان تمام مردوں نے صوبیہ پر حملہ کیا اور ایک نے کلہاڑی سے ان کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں۔

شاہ نے کہا، ''میں وہ دن کبھی نہیں بھولوں گی۔ جب وہ مجھے مارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے معذور کر دیا اور یہی میرا سب سے بڑا درد ہے۔ انہوں نے میری چلنے کی طاقت چھین لی۔‘‘

شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کے اب تک چار آپریشن ہو چکے ہیں۔ اس کی ٹانگیں پلاسٹرز میں لپٹی ہیں اور وہ اب بھی بیساکھیوں کا استعمال کرتی ہیں۔ تاہم وہ اب بھی اپنی کیس کی پیروی کر رہی ہیں۔ جب وہ دوسری منزل پر عدالتی سماعت سننے کی غرض سے جاتی ہیں تو ان کا بھائی شوکت علی شاہ انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر اوپری منزل تک لے جاتا ہے۔‘‘

شاہ کے والد جیل میں ہیں تاہم وہ دیگر ملزمان کے خلاف اب بھی قانون کی جنگ لڑ رہی ہیں۔

'وہ مجھ سے زبردستی کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا تھا'

صرف 12 سال کی عمر میں حلیمہ بھٹو کی شادی ہوگئی۔ شادی کے فوری بعد اس کے شوہر شکیل احمد نے اس سے جائیداد کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا جو اسے اپنے مرحوم والد سے وراثت میں ملی تھی۔

کئی بار انکار کے بعد اس نے حلیمہ کو گھوٹکی میں ان کے میکے بھیج دیا، جہاں وہ اگلے اٹھارہ سال تک مقیم رہیں۔

احمد دوبارہ سامنے آیا، صلح کرنے کے لیے نہیں، بلکہ ایک ایسے الزام کے ساتھ جو گھوٹکی کے جاگیردارانہ نظام میں موت کے وارنٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس نے یہ الزام عائد کیا کہ حلیمہ کا اس کے بہنوئی کے ساتھ ناجائز رشتہ ہے۔

حلیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ الزام بالکل غلط تھا۔ وہ دوبارہ میری جائیداد چاہتا تھا اور اسے حاصل کرنے کے لیے اس نے دوسرا راستہ تلاش کر لیا تھا۔‘‘ حلیمہ نے کہا کہ اپنی جان بچانے کا واحد راستہ گھوٹکی چھوڑ کر اسلام آباد جانا تھا۔

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے واقعات اور عوامی غم و غصہ

03:05

This browser does not support the video element.

پندرہ مہینوں سے زیادہ عرصے تک حلیمہ پاکستانی دارالحکومت کے پریس کلب کے باہر احتجاجاﹰ بیٹھی رہیں۔ انہوں نے بھوک ہڑتال بھی کی اور حکومت پر ملک کے جاگیردارنہ نظام کے خلاف بے عملی کا الزام لگاتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنا معاملہ عوامی کٹہرے میں لے کر آنا چاہتی تھی تاکہ مجھے خاموشی سے موت کے گھاٹ نا اتار دیا جائے۔ حلیمہ کی آواز پاکستان کے سپریم کورٹ تک پہنچی، جہاں انہوں نے 2011 میں ایک تاریخی فیصلہ جیتا۔ عدالت نے ان کی طلاق منظور کی اور ان کے والدین کی چھوڑی ہوئی جائیداد بھی ان کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''یہ صرف میری لڑائی نہیں تھی، یہ ہر اس عورت کے لیے لڑائی تھی جو ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرتی ہے۔‘‘

'غیرت کے نام پر قتل' کے کیسز کا جلد خاتمہ ہوگا، سندھ پولیس

گھوٹکی کے ضلعی پولیس ہیڈ کوارٹر میں ڈی ڈبلیو نے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) محمد انور کھیتران سے اس موضوع پر  کھل کر بات کی۔ انہوں نے کہا ''یہ عمل کیس صورت قابل قبول نہیں، یہ قابل نفرت ہے اور اسے معاشرے سے ختم کر دینا چاہیے۔‘‘ ان کے مطابق تاہم اس نظام کے بدلنے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

سندھ کے نوشہرو فیروز ضلع کے ایس ایس پی میر روحل کھوسو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تعلیم اور سماجی اقتصادی ترقی جلد تبدیلی لانے میں مددگار ہو گی۔انہوں نے کہا، ''جب ایک خاتون تعلیم یافتہ اور معاشی  طور پر خودمختار ہوتی ہے، تو اسے اپنے حقوق کا علم ہوتا ہے۔‘‘

عائشہ دھاریجو اس رپورٹ کی تیاری کے دوران مسلسل ڈی ڈبلیو کی ٹیم کے ساتھ رہیں۔ انہوں   نے کہا کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں گی تاکہ خواتین کے بنیادی حقوق فتو شاہ جیسے قبرستانوں یا صوبہ سندھ کے اسی حصے میں موجود کم از کم تین ایسے دیگر قبرستانوں میں دفن نہ کر دیے جائیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں