ویزا فری سفر کی اجازت نہ دی تو معاہدہ ختم کر دیں گے، ترکی
شمشیر حیدر30 مئی 2016
ترک وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر یورپی یونین نے ترک شہریوں کو یورپ میں بغیر ویزا سفر کرنے کی اجازت نہ دی تو انقرہ مہاجرین کو روکنے کے لیے یورپ سے طے کردہ معاہدہ ختم کر دے گا۔
اشتہار
ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق ترک شہریوں کو یورپ میں بغیر ویزا سفر کی اجازت جون میں دی جانا تھی لیکن ترکی کو اس سے پہلے یونین کی جانب سے دی گئی 72 شرائط پوری کرنا تھیں۔ ان شرائط میں یہ بھی شامل تھا کہ ترکی دہشت گردی سے متعلق اپنے موجودہ قوانین میں تبدیلی لائے۔
ترکی اور یورپی یونین کے مابین اس معاملے پر اختلافات کافی دنوں سے دیکھے جا رہے ہیں۔ ترک وزیر خارجہ مولو چاوش اولُو کا کہنا ہے ترکی میں دہشت گردی کے خلاف مروجہ قوانین میں تبدیلی لانا ناممکن ہے۔
چاوش اولُو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے انہیں (یورپی یونین کو) بتایا ہے کہ ہم دھمکی نہیں دے رہے بلکہ یہ حقیقت ہے۔ ہم نے یورپ کے ساتھ دو معاہدے کر رکھے ہیں جو ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ یہ دھمکی نہیں بلکہ معاہدے کی ضرورت ہے۔‘‘
ترک صدر رجب طیب ایردوآن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر ترک شہریوں کو شینگن زون میں ویزا فری سفر کی اجازت نہ دی گئی تو تارکین وطن کے بارے میں یورپی یونین کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ترک وزیر خارجہ نے بھی اس بارے میں کہا کہ ترکی یہ معاہدہ ختم کرنے کے لیے ’انتظامی‘ اقدامات کر سکتا ہے۔
برسلز کی جانب سے دہشت گردی کے قوانین میں تبدیلی کے مطالبے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے چاوش اولُو کا کہنا تھا، ’’آپ دہشت گردی کی کس تعریف کی بات کر رہے ہیں؟ یورپ کے ہر ملک میں دہشت گردی کا مفہوم مختلف ہے۔‘‘
بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر
01:11
ترک وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ترکی اس وقت ’ایک سے زائد دہشت گرد گروپوں کے خلاف لڑ رہا ہے، جن میں کالعدم قرار دی گئی کردستان ورکرز پارٹی بھی شامل ہے۔ ایسی صورت حال میں دہشت گردی سے متعلق قوانین میں تبدیلی ناممکن ہے‘۔
تمام تر مشکلات اور تلخ بیانات کے باجود یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں۔ چاوش اولُو نے بتایا کہ آئندہ دنوں میں ترک اور یورپی ماہرین کے مابین یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے مذاکرات ہوں گے۔ ان مذاکرات سے قبل ایک سربراہی اجلاس بھی متوقع ہے جس میں ممکنہ طور پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن بھی شریک ہوں گے۔ ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا، ’’ہم یورپی کونسل کے سات اور آٹھ جولائی کو ہونے والے اجلاس سے پہلے معاہدے کو حتمی شکل دے دیں گے اور ہم اس بارے میں پر عزم ہیں۔‘‘
یورپ اور ترکی کے مابین مہاجرین کے بارے میں طے پانے والے معاہدے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’معاہدے سے قبل یونانی جزیروں پر روزانہ سات ہزار کے قریب تارکین وطن پہنچ رہے تھے جب کہ اب یہ تعداد محض 30 پناہ گزین یومیہ تک محدود ہو چکی ہے۔‘‘ ترک وزیر خارجہ کے مطابق تارکین وطن کی تعداد میں کمی کی وجہ بحیرہ ایجیئن میں نیٹو کا مشن نہیں بلکہ ترکی کی جانب سے کیے گئے اقدامات ہیں۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔