آج چودہ فروری بروز بدھ دنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں تاہم پاکستان میں گزشتہ برس کی طرح اس مرتبہ بھی لوگوں کو کھلے عام اس دن کو منانے کی اجازت نہیں ہے۔
اشتہار
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی ریگولیٹری اتھارٹی پمرا نے تمام ریڈیو اور ٹی وی چیلنز کو ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ وہ ویلنٹائن ڈے کو فروغ نہ دیں۔ حکومت کی طرف سے اس دن پر عائد پابندی کی وجہ سے عوامی سطح پر ایسی کسی تقریب کی اجازت نہیں ہے، جس میں اس ’غیراسلامی‘ ایونٹ کو منایا جائے۔
محبت کے اظہار کے لیے ہر سال چودہ فروری کو منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے کی مقبولیت جہاں پاکستانی نوجوانوں کے ایک بڑے حصے کو اپنی جانب راغب کرتی ہے، وہیں اس دن کو منانے کی مخالفت میں کئی آوازیں بھی سنائی ديتی ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا ہے اور بہت سے افراد اس دن کو مناتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/R.S. Hussain
گزشتہ دو روز سے پاکستان بھر میں نوجوان ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے اپنے چاہنے والوں کے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ خریدتے نظر آ رہے ہیں۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ کسی خوبصورت جذبے کا اظہار کسی ایک دن کا محتاج نہیں، ’’لیکن اگر ایک دن ہم اپنے چاہنے والوں کو پھول یا کوئی اور تحفہ دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے۔‘‘
تصویر: DW/U. Fatima
ویلینٹائن ڈے منانے میں کوئی بری بات نہیں یہ خیالات کم و بیش ہر اس شخص کے ہیں جو اس دن کی مناسبت سے کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں اور ان کے لیے پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے فروری کے مہینے کی آمد کے ساتھ ہی دکانیں محبت کے اظہار کے لیے دیے جانے والے تحفے تحائف سے سجنے لگتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sajjad
جہاں ایک طبقہ اس دن کو منانے کے لیے پُر جوش نظر آتا ہے، وہیں اس کی مخالفت کی مہموں بھی زور و شور سے جاری رہتی ہیں۔ اس کی جھلک کہیں کہیں سڑکوں پر لگے ان بینرز پر نظر آتی ہے۔
تصویر: RIZWAN TABASSUM/AFP/Getty Images
تاہم چند روز قبل سے اس دن کو منانے کے خلاف ایک مہم چل رہی ہے۔ کراچی، اسلام آباد اور کئی دیگر شہروں میں اس دن کو نہ منانے کے پیغامات پر مبنی بینرز لگائے گئے ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
میڈیا رپورٹس کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہاٹ کی مقامی حکومت نے شہر میں ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے اشیاء کی خریداری پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس فیصلے کو سوشل میڈیا پر کئی افراد نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
تصویر: dapd
ملکی صدر ممنون حسین نے بھی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ویلنٹائن ڈے منانے سے گریز کریں کیونکہ یہ دن اسلامی روایت کا نہیں بلکہ مغربی روايات کا حصہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash
لوگ چاہے اس دن کو منانے کے حق میں فیصلہ کريں یا اس کی مخالفت کریں، اس کا فائدہ کاروبار سے منسلک لوگوں کو ضرور ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ شاپنگ سینٹرز ہوں یا ریستوران، ان سب پر اس دن کی خصوصیت کے پیش نظر نہ صرف مختلف پُرکشش پیکیجز پیش کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
9 تصاویر1 | 9
گزشتہ برس پاکستان کی ایک عدالت کی طرف سے ویلنٹائن ڈے کو ’غیر اسلامی‘ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس پابندی کے نتیجے میں پمرا نے ملکی میڈیا کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ اس ایونٹ کی تشہیر نہ کرے۔
اس پیشرفت کے بعد حکومت کی طرف سے یہ یقینی بنانے کی کوشش گئی ہے کہ اس دن کی مناسبت سے کوئی بھی ایونٹ منعقد نہ ہو۔ سن دو ہزار سولہ میں تو پاکستانی صدر ممنون حسین نے بھی عوام پر زور دیا تھا کہ وہ ویلنٹائن ڈے نہ منائیں۔
تاہم یہ سوال برقرار ہے کہ آیا پاکستان کا بالخصوص نوجوان طبقہ محبت سے تعبیر کیے جانے والے اس دن کو منائے گا یا نہیں۔ معاشرتی علوم کے ماہرین کے مطابق اس پابندی کے بعد اگر لوگ کھلے عام یا عوامی سطح پر کسی ایونٹ کا اہتمام نہ بھی کریں لیکن وہ اس دن کو یادگار بنانے کی خاطر نجی سطح پر کوششیں ضرور کریں گے۔ گزشتہ برس بھی پابندی کے باوجود پاکستان میں لوگوں نے اس دن کو منایا تھا۔
پاکستان میں ساٹھ فیصد آبادی کی عمر تیس برس سے کم ہے۔ پاکستان میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں اس آبادی کو اپنی مصنوعات کا اہم خریدار تصور کرتی ہیں، اس لیے انہیں لبھانے کے لیے مختلف طریقے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کمپنیوں نے ویلنٹائن ڈے اور ایسی دیگر ایونٹس کو بھی اشتہاری مہموں میں شامل کر رکھا ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران مذہبی بنیادوں پر شروع ہونے والے ’سیاسی ایکٹیوازم‘ میں بھی اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔ ایسی مذہبی جماعتیں اور گروہ ویلنٹائن ڈے جیسے دنوں کے شدید مخالف ہیں۔ ایسی کئی جماعتیں بشمول طالبان سے وابستہ جماعت علمائے اسلام ویلنٹائن ڈے کو منانے کے سخت خلاف ہیں۔
راولپنڈی میں پھولوں کی ایک دکان کے نزدیک ایک بس اسٹاپ پر کھڑے توفیق لغاری نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم مسلمان ہیں۔ ہمارا مذہب ویلنٹائن ڈے جیسی چیزوں کی ممانعت کرتا ہے۔‘‘ تاہم دوسری طرف اس پھولوں کی دکان کے مالک سلمان محمود کا موقف کچھ مختلف تھا۔ انہوں نے کہا، ’’میں نہیں جانتا کہ اگر میں کچھ پھول بیچ کر کچھ کماؤں گا یا کسی کو خوشی منانے کا کوئی موقع مل جائے گا تو اس سے ان اسلام پسندوں کو کیا خطرہ لاحق ہو جائے گا؟‘‘
ویلنٹائن ڈے پرکیڑے مکوڑے کا تناول
جاپان کے ایک بار میں ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر مہمانوں کی تواضع مختلف قسم کے کیڑے مکوڑوں سے کی جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ کو تو بیرون ملک سے درآمد کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
چاکلیٹ کیڑوں کے ساتھ
کیڑوں کے ساتھ چاکلیٹ کیک؟ یہ منفرد میٹھا ایک جاپانی بار میں ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر خصوصی طور پر مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ ایک مہمان کا کہنا ہے،’’ باہر سے کُرکرا اور اندر چاکلیٹ بھری ہوئی، مزیدار‘‘۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
ویلنٹائن ڈے کی خصوصیات
ڈوران نامی یہ بار ٹوکیو کے مرکز میں ہے۔ یہ بار اپنی اس جدت سے لوگوں کو حیران کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ حالانکہ اگر جاپان کے روایتی کھانوں کی بات کی جائے تو کیڑے مکوڑوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے یعنی کسی کھانے میں حشرات کا استعمال نہیں کیا جاتا۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
بھرپور توانائی
کیڑوں میں پروٹین، چربی، ویٹامن اور معدنیات کی بھرپورمقدار موجود ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم ’ ایف اے او‘ نے کیڑے مکوڑوں کو غذا کے طور پر استعمال کرنے کو سراہا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
کیڑوں کی درآمد
ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر یہ کیڑے خصوصی طور پر تھائی لینڈ سے درآمد کیے گئے ہیں۔ کسی بھی مہمان کو ایک پلیٹ کیڑے کھانے کے لیے پانچ سے چھ یورو کے برابر ادا کرنے پڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
کاکٹیل میں بھی کیڑے
اس جاپانی بار میں صرف کیڑے کھانے کے لیے ہی نہیں پیش کیے جاتے بلکہ کاکٹیل کے گلاس کو پھل کے بجائے کیڑوں سے خوبصورت و دلکش بنایا جاتا ہے۔ مہمانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح انہیں کیڑوں کے خوف سے چھٹکارا پانے میں مدد ملی ہے۔