وینزویلا میں دو امریکیوں پر دہشت گردی کا الزام عائد
9 مئی 2020
دو امریکی فوجیوں پر وینزویلا میں دہشت گردی کے ساتھ حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ فوجی صدر نکولاس مادورو کی حکومت گرانا چاہتے تھے۔ الزام ثابت ہونے کی صورت میں ان کو تیس برس تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
اشتہار
مادورو حکومت کے اٹارنی جنرل طارق ولیم صاب نے جمعہ آٹھ مئی کو ایک پریس کانفرنس میں دونوں امریکی فوجیوں پر الزامات عائد کیے جانے کی تفصیلات بیان کی تھیں۔ اس پریس کانفرنس میں صاب نے واضح کیا کہ یہ فوجی حکومت گرا کر اُس پر قبضہ کرنے کی کوشش میں تھے۔
طارق ولیم صاب نے ان امریکیوں کی شناخت کا بھی اعلان کیا۔ ان میں ایک چونتیس برس کا لیوک ڈینمین اور دوسرا اکتالیس سالہ ائرن بیری ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ یہ دونوں سابق امریکی فوجی ہیں۔ ان امریکی فوجیوں کو حکومت گرانے، دہشت گردی پھیلانے کے علاوہ غیر قانونی طور پر جنگی ہتھیاروں کو وینزویلا پہچانے اور مجرمانہ سرگرمیوں میں شریک ہونے کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
ڈینمین اور بیری کو وینزویلا میں گزشتہ ہفتے کے دوران دیگر اکتیس افراد کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری ایک ساحلی علاقے میں غیرقانونی انداز میں داخلے کے وقت ہوئی تھی۔ ان افراد اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پیش آنے والی جھڑپ میں کم از کم آٹھ افراد کی مبینہ ہلاکت بھی بتائی گئی تھی۔ مرنے والے آٹھ افراد کی قومیتوں کے بارے نہیں بتایا گیا۔
طارق ولیم صاب نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کے ملکی اپوزیشن لیڈر خوآن گوائیڈو کے ایک اہم مشیر خوان ہوزے رینڈون کی گرفتاری کے انٹرنیشنل وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ رینڈون کو حکومت گرانے کی مبینہ کارروائی میں بطور سہولت کار پیش کیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے امریکی حکام کے ساتھ اس مبینہ فوجی مداخلت میں مدد دینے کے کنٹریکٹ پر دستخط کیے تھے۔
وینزویلا کے اٹارنی جنرل نے بتایا کی انٹرنیشنل وارنٹ امریکی فوج کے طبی شعبے کے ایک سابق افسر جارڈن گودرُو کے خلاف بھی جاری کرنے کی درخواست انٹرپول حکام کو بھیج دی گئی ہے۔ گودرُو نے دونوں امریکی فوجیوں کے ساتھ گرفتار ہونے والے افراد کو عسکری نوعیت کی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ مادورو حکومت گرانے کے مبینہ منصوبے کی پلاننگ بھی کی تھی۔
طارق ولیم صاب کے مطابق مزید بائیس مشتبہ ملکی شہریوں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ ان میں کون کون شامل ہے، اس کی تفصیل بھی بتائی نہیں گئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ گرفتار ہونے والے ملکی شہریوں کو ایک غیر ملک کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ملکی حکومت گرانے کی سازش کے الزام کا سامنا ہو گا۔
دوسری جانب امریکی حکومت نے وینزویلا کے ان الزامات کی پرزور الفاظ میں تردید کی ہے۔
جنوبی امریکی ملک وینزویلا اور امریکا کے مابین کشیدہ تعلقات کے باعث اُس سارے خطے میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ امریکا نے مادورو حکومت کے خلاف کئی پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں۔ اس کشیدگی میں صدر نکولاس مادورو بھی امریکا پر ملک میں مداخلت کے کئی الزامات لگانے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وینزویلا کو گہرے سیاسی عدم استحکام اور انتہائی کمزور معاشی صورت حال کا سامنا ہے۔
ع ح، ع آ (ڈی پی اے، اے ایف پی)
وینزویلا کا صدر کون؟ نکولس مادورو یا خوان گوائیڈو
جنوبی امریکی ملک وینزویلا اس وقت سنگین سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ مادورو حکومت اور پارلیمانی اسپیکر خوان گوائیڈو کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی بڑے خون خرابے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez/F. Parra
نکولس مادورو
نکولس مادورو وینزویلا کے چھیالیسویں صدر ہیں۔ انہوں نے منصب صدارت انیس اپریل سن 2013 کو سنبھالا تھا۔ وہ اپنے پیش رو صدر ہوگو چاویز کے نائب بھی تھے۔ اب مادورو ایک مرتبہ پھر متنازعہ انتخابی کے بعد دوبارہ صدر ضرور منتخب ہو چکے ہیں لیکن اس وقت اُن کی صدارت کو پارلیمانی اسپیکر خوان گوائیڈو نے چیلنج کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Quintero
وینزویلا کی فوج مادورو کے ساتھ ہے
وینزویلا کے وزیر دفاع ولادیمیر پیڈرو لوپیز نے ملکی ٹیلی وژن پر اپنی فوج کے اعلیٰ افسران کے ہمراہ واضح کیا ہے کہ تمام افسران صدر نکولس مادورو کے ساتھ کھڑے ہیں اور ملکی استحکام کے مخالف کیے جانے والے ہر اقدام کی مخالفت کریں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Robayo
نکولس مادورو کی عوامی رابطہ کاری
نکولس مادورو نے بھی جنوری سن 2019 کے دوران ایک عوامی جلسے میں شرکت کی۔ یہ جلسہ وینزویلا کے ڈکٹیٹر مارکوس پیریز خیمینیز کے اقتدار کے خاتمے کی اکسٹھ برس مکمل ہونے پر دارالحکومت کاراکس میں منعقد کیا گیا تھا۔ خیمینیز کے اقتدار کا خاتمہ تیئیس جنوری سن 1958 کو ہوا تھا۔
تصویر: Reuters/Miraflores Palace
مادورو کے حمایتی سیاستدان
نکولس مادورو کی حمایت میں اُن کے بعض حامی سیاستدان بھی متحرک ہیں۔ زیر نظر تصویر میں وینزویلا کی دستور ساز اسمبلی کے صدر ڈیئوس ڈاڈو کابیو ملکی دارالحکومت میں نکولس مادورو کی حمایت میں منعقدہ جلسے میں تقریر کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Torrealba
وینزویلا کی عوامی بے چینی
وینزویلا کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ اس بحران نے سارے ملک میں سماجی و معاشرتی مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ ہزاروں افراد ملکی حالات کے باعث ہمسایہ ممالک میں بطور مہاجر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ہنڈراس میں وینزویلا کے مہاجرین نکولس مادورو کے خلاف جلوس نکالے ہوئے۔
تصویر: Reuters/
خوان گوائیڈو
نوجوان سیاستدان خوان گوائیڈو وینزویلا کی پارلیمان کے اسپیکر ہیں۔ انہوں نے تیئیس جنوری سن 2019 کو ملک کا عبوری صدر ہونے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ان کے اعلان کی حمایت کی ہے۔ اب تک کئی ممالک نے گوائیڈو کو وینزویلا کا عبوری صدر تسلیم کر لیا ہے۔ ابھی جرمنی اور یورپی یونین نے انہیں عبوری صدر کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے لیکن وینزویلا کی اپوزیشن کی حمایت ضرور کی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Parra
گوائیڈو کی حمایت میں ’سبھی متفق‘
وینزویلا کے مختلف طبقوں نے عملی طور پر جلسے جلوسوں کی صورت میں خوان گوائیڈو کی حمایت کی ہے۔ ملک کی ساری اپوزیشن بھی نوجوان سیاستدان کے ہمراہ ہے۔
تصویر: Reuters/
عوام کاراکس کی سڑکوں پر تبدیلی کے منتظر
وینزویلا کا دارالحکومت خوان گوائیڈو کے حامیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہزار ہا افراد ملک کے مختلف حصوں سے دارالحکومت کی گلیوں اور سڑکوں پر کسی تبدیلی کے منتظر ہیں۔ مادورو مخالف جلوسوں کے شرکاء کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ اب تک ایسی جھڑپوں میں ہلاک شدگان کی تعداد ایک درجن سے زائد ہو چکی ہے۔
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins
تیئیس جنوری، اپوزیشن کی ریلی
وینزویلا میں سابق ڈکٹیٹر مارکوس پیریز کے زوال کا دن انتہائی اہم سیاسی بیداری کا نشان خیال کیا جاتا ہے۔ تیئیس جنوری سن 2019 کووینزویلا کے ہزارہا افراد ملکی اپوزیشن کی ریلی میں شریک ہوئے اور انہوں نے مادورو حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ اسی روز خوان گوائیڈو نے عبوری صدر ہونے کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Loureiro
خوان گوائیڈو: ایک نئی امید
تقریباً چھتیس سالہ خوان گوائیڈو کو وینزویلا کے سیاست دانوں کی نئی نسل کا نمائندہ قرار دیا گیا ہے۔ انہیں پانچ جنوری سن 2019 کو ملکی قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب کیا گیا تھا۔ وہ طالب علمی کے دور سے ہی سیاست میں متحرک ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اُن کی مقبولیت اور عوامی حمایت وینزویلا میں کسی تبدیلی کا آئنہ دار ہو سکتی ہے۔