وینزویلا میں نہیں، طرابلس میں ہوں، معمر قذافی
22 فروری 2011معمر قذافی نے ٹیلی ویژن پر دیے گئے بیان میں کہا کہ وہ وینزویلا میں نہیں بلکہ طرابلس میں ہی ہیں۔ قبل ازیں پیر کو ایسی اطلاعات ملیں، جن میں کہا گیا تھا کہ وہ وینزویلا فرار ہو گئے ہیں، جہاں ان کے دوست اوگو چاویز کی حکومت ہے۔
اُدھر لیبیا میں معمر قذافی کی وفادار افواج ان کے اقتدار کو بچانے کے لیے پرتشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خبررساں ادارے روئٹرز نے دارالحکومت طرابلس میں رہائشیوں کے حوالے سے فائرنگ کی آوازوں کی تصدیق کی ہے۔ روئٹرز کے مطابق ایک تجزیہ کار نے شہر پر جنگی طیاروں کی جانب سے بمباری کی بھی خبر دی ہیں، معمر قذافی کے بیٹے سیف السلام قذافی نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔
تاہم مالٹا کے حکام کا کہنا ہے کہ لیبیا کے دو جنگی طیارے ان کے ہاں آ اترے ہیں، جن کے پائلٹس نے کہا ہے کہ انہیں مظاہرین پر بمباری کا حکم دیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے گروپوں اور عینی شاہدین کے مطابق ملک بھر میں سکیورٹی فورسز درجنوں مظاہرین کو ہلاک کر چکی ہیں، جس کی عالمی برادری نے کھل کر مذمت کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ خون ریزی کا یہ سلسلہ فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔
ہیومن رائٹس واچ نے پانچ روز کے دوران لیبیا میں 233 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ وہاں کے اپوزیشن گروپ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ بتا رہے ہیں۔
دوسری جانب روئٹرز کا کہنا ہے کہ لیبیا کے حوالے سے خبروں کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پا رہی جبکہ بیرونی دنیا کا لیبیا سے رابطہ بھی مشکل بنا ہوا ہے۔ اُدھر العریبیہ ٹیلی ویژن کا کہنا ہے کہ عسکری اہلکاروں کے ایک گروپ نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں فوجیوں پر عوام کا ساتھ دینے کا زور دیتے ہوئے قذافی کو ہٹانے کے لیے مدد فراہم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
لیبیا کے وزیر انصاف مصطفیٰ عبدالجلیل نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر احتجاجاﹰ استعفیٰ دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ میں لیبیا کے مشن میں شامل سفارت کاروں نے بھی معمر قذافی کو ’جابر‘ قرار دیتے ہوئے فوج پر زور دیا ہے کہ انہیں اقتدار سے ہٹایا جائے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد