امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وینزویلا کے بحران میں شدت کے باعث ان کی انتظامیہ اس سوشلسٹ ملک کے صدر نکولاس مادورو کے خلاف عسکری کارروائی پر غور کر رہی ہے۔ وینزویلا نے ٹرمپ کے اس بیان کو ’پاگل پن‘ قرار دے دیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے بتایا ہے کہ وینزویلا کے سیاسی بحران میں شدت کے باعث واشنگٹن حکومت عسکری آپشنز پر غور کر ر ہی ہے۔ ملکی اپوزیشن کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کے نتیجے میں امریکی حکومت وینزویلا کے صدر نکولاس مادورو کو ’آمر‘ قرار دے چکی ہے جبکہ مادورو اور ان کے قریبی ساتھیوں پر سخت پابندیاں بھی عائد کی جا چکی ہیں۔ دوسری طرف کاراکس حکومت اپنے ملک میں ان کا حالات ذمہ دار امریکا کو قرار دیتی ہے۔ مادورو کا کہنا ہے کہ امریکی ’سامراجی جارحیت‘ وینزویلا میں ان شدید حالات کی ذمہ دار ہے۔
وینزویلا کے موجودہ بحران کے تناظر میں امریکی صدر ٹرمپ نے جمعے کے دن صحافیوں سے گفتگو میں کہا، ’’ وینزویلا کے لیے ہمارے پاس کئی آپشنز ہیں، جن میں عسکری آپشن بھی شامل ہے، اگر اس کی ضرورت پڑی تو۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’وینزویلا میں لوگ تکلیف میں مبتلا ہیں، وہ مر رہے ہیں‘۔ ٹرمپ نے انتباہی انداز میں مزید کہا، ’’دنیا کے دور دراز علاقوں میں ہمارے فوجی موجود ہیں اور وینزویلا تو امریکا سے زیادہ دور بھی نہیں ہے‘‘۔
وینزویلا کے باشندے، اشیائے ضرورت کی شدید کمی کے شکار
01:08
ری پبلکن سیاستدان ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے نیوجرسی میں قیام کے دوران گالف کلب میں وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور اقوام متحدہ کے لیے امریکی مندوب نیکی ہیلی کے ساتھ مذاکرات میں وینزویلا کے بارے میں بھی گفتگو کی تھی۔
انہوں نے کہا، ’’وینزویلا بہت زیادہ گندا ہو چکا ہے، وہاں بہت خطرناک بے ترتیبی پائی جا رہی ہے۔ یہ ایک افسوس ناک صورتحال ہے۔‘‘
پینٹاگون ترجمان ایرک پاہون نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ اگر وینزویلا میں کسی عسکری کارروائی پر غور کیا جا رہا ہے تو وہ بہت ہی ابتدائی نوعیت کا ہو گا۔
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان نے زیادہ تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ ابھی تک پینٹا گون کو اس تناظر میں کوئی احکامات موصول نہیں ہوئے ہیں۔
وینزویلا کے صدر نکولاس مادورو نے گزشتہ ہفتے ہی امریکی صدر ٹرمپ سے مذاکرات کے لیے رضا مندی ظاہر کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم وائٹ ہاؤس کے مطابق جب تک وینزویلا میں جمہوریت بحال نہیں ہوتی، تب تک امریکی صدر ٹرمپ مادورو سے گفتگو نہیں کریں گے۔
دریں اثنا وینزویلا کے وزیر دفاع جنرل ولادیمیر پادرینو نے امریکی دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’پاگل پن پر مبنی ایک عمل اور اعلیٰ درجے کی انتہاپسندی‘ قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’امریکا کو ایک انتہا پسندانہ ایلیٹ چلا رہی ہے۔ ایمانداری کے ساتھ کہوں گا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ صورتحال دنیا کو کہاں لے جائے گی۔‘‘
وینزویلا کی اپوزیشن گزشتہ چار ماہ سے حکومت مخالف مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہے۔ سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے مابین ہونے والی متعدد جھڑپوں کے نتیجے میں ایک سو تیس افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔
تاہم گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے شدید کریک ڈاؤن کی وجہ سے ان مظاہروں کی شدت میں کمی آ چکی ہے۔ ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ صدر مادورو اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں۔
’قلت، ہنگامہ آرائی،خشک سالی‘ وینزویلا مشکل میں
وینزویلا کا شمار تیل برآمد کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں نے اس ملک کو مالی مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔ گزشتہ برس کے دوران وینزویلا میں افراط زر میں 180 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EFE/M. Gutiérrez
افراط زر معیشت کو نگل رہی ہے
ضرورت سے زیادہ افراط زر سے وینزویلا میں کاروبار زندگی ایک طرح سے مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ اس سے مقامی اور بین الاقوامی کاروباری اداروں کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔ کرنسی کی قدر مسلسل نیچے جا رہی ہے اور حکومت نے بولیواز کی امریکی ڈالر میں منتقلی کو مشکل بنا دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Ismar
اشیاء کی قلت
اس لاطینی امریکی ملک میں کھانے پینے کی اشیاء کی بھی شدید قلت ہو چکی ہے۔ اکثر سپر مارکیٹوں کی الماریاں خالی دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
قطار در قطار
کھانے پینے کی اشیاء کی قلت کا مطلب یہ ہے کہ چیزیں خریدنے کے لیے شہریوں کو لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ صرف مخصوص مقامات پر ہی ضروری اشیاء دستیاب ہیں۔ یہ کاراکس کے ایک غریب علاقے میں ایک دکان کے باہرکا منظر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Schemidt
دستخط جمع کیے جا رہے ہیں
وینزویلا میں حزب اختلاف کے رہنما چاہتے ہیں کہ ملک میں ایک ریفرنڈم کرایا جائے اور اس مقصد کے لیے شہریوں کے دستخط جمع کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے انہیں کم از کم بیس لاکھ دستخطوں کی ضرورت ہے اور ابھی تک اٹھارہ لاکھ افراداس دستاویز پر دستخط ثبت کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ریفرنڈم کی اجازت
حزب اختلاف کے رہنما ہینریکے کاپرلس نے صحافیوں کو بتایا کہ ملکی الیکشن کمیشن نے ریفرنڈم کرانے کے اجازت دے دی ہے۔ لیکن صدر نکولس مادورو کی حکومت اس سلسلے میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ریفرنڈم کے لیے احتجاج
شہری حکومت سے ریفرنڈم جلد از جلد کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اکثر مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Bello
طلبہ احتجاج
احتجاج کے معاملے میں طلبہ بھی پیچھے نہیں ہیں۔ یہ لوگ ملک کی کمزور ہوتی ہوئی معیشت اور ریفرنڈم کو ملتوی کرنے کی حکومتی کوششوں کے خلاف سراپا احتجاج بننے ہوئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Schemidt
خشک سالی
وینزویلا کے مسائل میں شدید خشک سالی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ ملک کے ایک بڑے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم میں اب پانی کی بجائےصرف مٹی اور کیچڑ ہی دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins
تباہی کی شدت
ملکی توانائی کا سب سے زیادہ انحصار گوری ڈیم پر ہے اور یہیں سے پانی کی دیگر ضروریات بھی پوری کی جاتی ہیں۔ اس کا شمار دنیا کے بڑے ڈیموں میں ہوتا ہے۔ تاہم پانی کا ذخیرہ کم ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ صحرا میں تبدیل ہو چکا ہے اور بجلی کی بھی شدت قلت ہے۔
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins
صحت کے شعبے کی زبوں حالی
اولیور سانچیز کی عمر آٹھ سال ہے۔ یہ اپنے ہاتھوں میں جو کارڈ اٹھائے ہوئے ہے اس پر درج ہے، ’’میں صحت مند ہونا چاہتا ہوں، میں امن چاہتا ہوں میں ادویات چاہتا ہوں۔‘‘ سانچیز کاراکس میں ادویات کی عدم دستیابی کے خلاف کیے جانے والے احتجاج میں شریک تھا۔ وینزویلا میں آج کل ادویات بھی نایاب ہو چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Cubillos
صدر مادورو ہدف تنقید
وینزویلا کی معیشت میں یہ ابتری عالمی منڈی میں خام تیل کی گرتی ہوتی ہوئی قیمتوں سے ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اس ملک کی معیشت تقریباً پچاس فیصد سکڑ گئی ہے۔ عوام صدر نکولس مادورو کو بجلی اور اشیاء خوردو نوش کی قلت کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔