وینزویلا کے سیاسی بحران کا نیا رُخ، سپریم کورٹ بھی میدان میں
31 مارچ 2017وینزویلا کی اعلیٰ ترین عدالت نے بدھ انتیس مارچ کی شام میں اپنے فیصلے میں کہا کہ اراکین پارلیمنٹ مسلسل توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور دیے گئے فیصلوں کا احترام بھی نہیں کیا جا رہا لہذا اس صورت حال میں پارلیمانی اختیارات عدالت کو منتقل کر دیے جائیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے کیے گئے فیصلے کو صدر نکولس مادُورو کی آمریت کی جانب ایک اور قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ وینزویلا کی اپوزیشن نے اس عدالتی فیصلے کو ایک ’بغاوت‘ قرار دیا ہے۔
اس عدالتی فیصلے میں کہا گیا جب تک نیشنل اسمبلی توہین عدلت کے عمل سے گریز نہیں کرتی اور بے یقینی کی صورت حال کو ختم نہیں کرتی تب تک پارلیمانی اختیارات براہ راست سپریم کورٹ کو منتقل کر دیے جائیں یا پھر کوئی دوسرا ادارہ جو قانون کے احترام کا ذمہ دار ہو، اُسے منتقل کر دیے جائیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق وینزویلا کی سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملک میں جاری سیاسی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے اور خدشہ ہے کہ عوامی غضب کی لپیٹ میں جج نہ آ جائیں۔
اس صورت حال پر دو امریکی براعظموں کے چونتیس ملکوں کی تنظیم او اے ایس کے سیکرٹری جنرل لُوئیس المارگو کا کہنا ہے کہ یہ پوری طرح سے دستورکا انحراف اور کسی حد تک اِسے ’بغاوت‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ امریکا، برازیل، میکسیکو، ارجنٹائن، چلی اور کولمبیا کی جانب سے اِس عدالت عمل کی مذمت سامنے آ چکی ہے۔
کل جمعرات کو نیشنل اسمبلی کے اجلاس میں اراکین نے عدالتی فیصلے کے کاپیوں کو پھاڑ کر پھینک دیا اور مادورو حکومت کے مخالف اراکین مسلسل صدر کی آمریت کو ماننے سے انکار کرتے رہے۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک یونٹی کے اراکین نے عدالتی فیصلے کو ’کچرا‘ قرار دیتے ہوئے اسے عوام کے حقوق اور آزادی پر ’عدالتی سرقہ‘ قرار دیا۔ اپوزیشن کے اراکین نے ملکی فوج کے سربراہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بحرانی صورت حال میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ وینزویلا کی فوج اور سپریم کورٹ کو صدر نکولس مادورو کے حامی خیال کیے جاتے ہیں۔